مجموعی طور پر ترقیاتی کاموں کے اعتبار سے پاکستان کا ایسا کوئی ماڈل حلقہ اس وقت نہیں جس کی مثال سامنے رکھ کر دوسرے حلقوں کا جائزہ لیا جاسکے لیکن اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کا حلقہ انتخاب ہونے کے باعث اہمیت حاصل کرنے اور گزشتہ 6 سال میں 2 وفاقی وزرا دینے والا حلقہ ہونے کے باوجود وہ کس حال میں یہ آپ کو بتاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بنیادی سہولیات سے محروم کراچی کا پسماندہ علاقہ جو گولڈ میڈلسٹس پیدا کر رہا ہے
یہ کہانی ہے کراچی کے بلدیہ ٹاؤن کی یا قومی اسمبلی ہے حلقہ 242 کی جو ہر بار اہمیت تب اختیار کرتا ہے جب عام انتخابات ہوتے ہیں کیوں کہ اس حلقہ انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک ہونے کے باعث میاں محمد شہباز شریف میدان میں ہوتے ہیں، دوسری جانب فیصل واوڈا اس حلقے سے جیت کر وفاقی وزیر بن چکے ہیں اور اب مصطفیٰ کمال بھی یہیں سے جیت کر وفاقی وزیر بنے ہیں۔
بلدیہ ٹاؤن اور حلقہ 242 کی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہ حب ڈیم کی قریب ترین آبادی ہے لیکن پھر بھی اس کی بدقسمتی ہے کہ اس علاقے کہ زیادہ تر حصے کو پانی میسر نہیں ہے جیسے کہ گلشن غازی، عابد آباد، رشید آباد، سوات کالونی، لاسی پاڑہ، میاں والی پاڑہ اور غرض یہ کہ اس حلقے کا زیادہ حصہ پانی کی نعمت سے محروم ہے اور اب تو صورت حال یہ کہ یہاں پانی کی لائنیں تک ختم ہوچکی ہیں۔
حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اس لاکھوں کی آبادی پر مشتمل علاقے میں واٹر بوڑد کا کوئی دفتر بھی موجود نہیں ہے۔ بلدیہ ٹاؤن کی آبادی کے اندر جب آپ کا جانا ہو تو تنگ گلیوں والی اس آبادی کا سب سے بڑا مسلئہ ہے ہی پانی کا۔ یہاں پانی آتا نہیں بلکہ لایا جاتا ہے وہ بھی خرید کر۔ پانی کے ڈرم مرد یا خواتین خود اٹھا کر وہاں لاتی ہیں۔
مزید پڑھیے: کراچی بلدیہ ٹاؤن فیکٹری آگ سے میرا یا حماد صدیقی کا کوئی تعلق نہیں، مجرم رحمان بھولا
بلدیہ ٹاؤن کا گنجان آباد علاقہ تاریخ کے بدترین تجاوزات و زمینیوں پر غیر قانونی قبضوں کا بھی شکار رہا ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جب یہاں کے سرکاری زمینوں پر بننے والے شادی ہالوں کو گرانے کا حکم دیا تھا تو حکم پر عملدرآمد کرنے والوں نے پیسے لینے کو ترجیح دیتے ہوئے ان شادی ہالوں کو صرف اتنا نقصان پہنچایا کہ وہ دوبارہ ٹھیک ہو سکیں اور جب یہ بات چیف جسٹس تک پہنچائی گئی تو ان کے الفاظ تھے کہ ’اب میں کیا کر سکتا ہوں‘۔ یوں بلدیہ ٹاؤن کی لاکھوں نفوس کی آبادی کھیل کے میدانوں اور پارکوں سے بھی محروم ہے۔
یہاں پر زیادہ تر علاقہ ایسا ہے جہاں گلیاں سڑکیں اور سیوریج کا نظام درہم برہم ہے اور عوام بجلی، پانی اور گیس کو بھی ترستے ہیں۔ ان مسائل پر انتخابات میں سیاست ہوتی ہے اور انہیں حل کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں لیکن جیت جانے کے بعد جیتنے والا کبھی کبھار ہی اس حلقے سے گزرتا ہے کیوں کہ ان کا وہاں سے تعلق صرف ووٹ لینے کی حد تک ہی ہوتا ہے اور وہ رہتے کہیں اور ہیں۔
مزید پڑھیں: کراچی میں مقبول فٹبال کی قسم فٹ سل کیسے کھیلی جاتی ہے؟
بلدیہ ٹاؤن کے اس حلقے میں سوئی سدرن گیس کمپنی کا کوئی دفتر بھی موجود نہیں ہے جہاں شہری گیس کی بندش یا اس سے متعلق کوئی اور شکایت کر سکیں۔
اس حلقے میں اول تو پارکوں کی تعاد نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن جو ہیں وہ ٹھیکہ داری سسٹم کے تحت چل رہے ہیں جہاں داخلے کے لیے 50 روپے کی پرچی لینا ضروری ہے۔ بلدیہ ٹاؤن کے ماسٹر پلان کو تباہ کردیا گیا ہے اس وقت 70 کے قریب رفاحی پلاٹوں پر قبضہ ہو چکا ہے جن پر سرکاری طور پر عوام کے لیے سہولیات فراہم کیے جانا تھے۔
یہ بھی پڑھیے: 9 برس کی ننھی ماورہ نے پاکستان کو 2 میڈل جتوا کر نئی تاریخ رقم کردی
گزشتہ ادوار کی طرح اس دور میں بھی ایک برس بیت جانے کے باوجود کوئی ترقیاتی کام عمل میں نہیں لایا جا سکا۔ اگر بات کی جائے تعلیم کی تو سرکاری اسکولوں کی حالت تباہ حالی کا شکار ہیں، سڑکوں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ صبح کا نکلا شام کو گھر آئے تو اسے گرد، دھول مٹی کے باعث گھر والے بھی پہچاننے سے انکار کردیں۔