ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ شام پر واجب الادا 15.5 ملین ڈالر قرض سعودی عرب اور قطر نے ادا کر دیا ہے، اور دمشق کو نیا قرضہ لینے کے لیے کلیئر کر دیا ہے۔
سعودی عرب اور قطر نے گزشتہ ماہ شام کے واجب الادا قرضہ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اقدام کو شام نے 14 سالہ تنازعے کے بعد بحالی اور تعمیر نو کی راہ ہموار کرنے کے طور پر سراہا۔
واضح رہے کہ 14 سالہ تنازعہ میں نصف ملین افراد ہلاک ہوئے اور ملک میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی۔یہ قرض عالمی بینک کی انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن سے لیا گیا تھا۔ یہ ادارہ دنیا کے غریب ترین ممالک کو صفر یا کم سود پر قرضے اور گرانٹ فراہم کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے شام پر عائد امریکی پابندیاں ہٹائے جانے پر پاکستان کا خیرمقدم
عالمی بینک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام کی طرف سے قرض کی ادائیگی سے عالمی بینک گروپ کو ملک کے ساتھ دوبارہ منسلک ہونے اور شامی عوام کی ترقیاتی ضروریات کو پورا کرنے کا موقع ملے گا۔ ورلڈ بینک کی طرف سے مزید کہا گیا کہ شام کے ساتھ ہماری دوبارہ شمولیت کا پہلا منصوبہ بجلی کی فراہمی سے متعلق ہوگا۔ واضح رہے کہ شام کے سابق صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے والی خانہ جنگی کے خاتمے کے مہینوں بعد، ملک میں بجلی کی شدید قلت جاری ہے۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ 90 فیصد شامی غربت کی حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ ریاست کی طرف سے فراہم کی جانے والی بجلی روزانہ 2 گھنٹے سے بھی کم ہوتی ہے۔ لاکھوں شامی نجی جنریٹر کی خدمات کے لیے بھاری رقم ادا کرنے یا کم سپلائی کو پورا کرنے کے لیے سولر پینل لگانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
یہ بھی پڑھیے سعودی عرب اور قطر کا شام کے ذمہ ورلڈ بینک کے قرضے کا تصفیہ کرنے کا اعلان
مارچ میں، قطر نے شام کو اردن کے راستے قدرتی گیس کی فراہمی شروع کی تاکہ بجلی کی طویل گھنٹوں کے بحران کو کم کیا جا سکے۔
اس ہفتے کے اوائل میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب میں شام کے صدر احمد الشارع سے ملاقات کی، امریکی صدر نے کہا کہ وہ شام میں سرمایہ کاری کا راستہ ہموار کرتے ہوئے پابندیاں ہٹانے کے لیے آگے بڑھیں گے۔