اسرائیل کا خوراک مرکز فلسطینیوں کے لیے بچھایا گیا ایک اور موت کا جال

منگل 15 جولائی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے تاہم جہاں ان نہتے افراد کو گولہ بارود کے ذریعے ختم کیا جا رہا ہے وہیں انہیں خوراک دینے کے بہانے بلاکر بھی موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ میں پانی بھرنے گئے بچوں پر اسرائیلی حملہ، 8 فلسطینی شہید

خوراک کے مراکز اور ان میں تقسیم کی جانے والی اشیا گویا ایک پھندا یا چارا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کو ایک اور راستے موت دینے کے لیے تیار کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے غزہ مین حالیہ ہفتوں کے دوران خوراک کی کمی اور امدادی سامان کے حصول کی کوششوں میں کم از کم 875 فلسطینیوں کی شہادت کی تصدیق کی ہے۔

او ایچ سی ایچ آر کے ترجمان ثمین الخیطانان میں سے بیشتر ہلاکتیں غزہ امدادی فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے نجی مراکز پر ہوئی ہیں جہاں اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور تشویشناک حالات نے انسانیت کے لیے ایک نیا المیہ جنم دیا ہے۔

مزید پڑھیے: غزہ کے خوراک مراکز پر کتنی ضرورتمند خواتین و بچوں کو اسرائیل کھانے کی بجائے موت دے چکا

 13 جولائی تک 674 افراد کو جی ایچ ایف کے مراکز پر فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جب کہ 201 افراد امدادی قافلوں سے خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ یا لڑائی کے دوران جان سے چلے گئے۔

حالیہ واقعہ گزشتہ روز صبح 9 بجے جنوبی رفح کے علاقے میں پیش آیا جہاں خوراک کے حصول کی کوشش کرنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج نے گولہ باری کی۔ اس حملے میں 2 افراد شہید اور 8 زخمی ہو گئے جنہیں بعد میں انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے اسپتال منتقل کیا گیا۔

جان لیوا غذائی قلت

اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) نے غزہ میں خوراک کی کمی کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ادارے کی ڈائریکٹر جولیٹ ٹوما نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کا مکمل محاصرہ بچوں کی غذائی قلت اور ان کی ہلاکتوں کا سبب بن رہا ہے۔

غذا کی ترسیل میں اسرائیل کی رخنہ اندازی

انہوں نے بتایا کہ یو این ایجنسیوں کو تقریباً 4 ماہ سے غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل کی اجازت نہیں دی جا رہی جس کے نتیجے میں غزہ کے 20 لاکھ سے زائد افراد، جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے، کو شدید غذائی بحران کا سامنا ہے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کی درندگی جاری: اہلخانہ کے لیے کھانا لینے جانے والوں کی مزید 57 لاشیں خالی ہاتھ گھر واپس

ان کا کہنا تھا کہ مصر اور اردن میں 6،000 امدادی ٹرک تیار کھڑے ہیں اور یہ 3 گھنٹے میں غزہ پہنچ سکتے ہیں مگر اسرائیلی محاصرہ ان امدادی سامان کو غزہ تک پہنچنے سے روک رہا ہے۔ ان ٹرکوں میں خوراک، صحت کے سامان، اور ادویات شامل ہیں، جو فوری طور پر غزہ کے شہریوں کو درکار ہیں۔

مغربی کنارے کی خاموش جنگ

مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اسرائیلی آباد کاروں اور سیکیورٹی فورسز کے تشدد سے فلسطینیوں کی شہادتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

رواں سال کے آغاز سے مغربی کنارے کے شمالی حصے میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں سینکڑوں فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کیا جا چکا ہے جس کے نتیجے میں 30 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی

ثمین الخیطان نے کہا کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق اسرائیل کی ذمہ داریوں کا پورا اطلاق ہونا چاہیے اور مقبوضہ علاقے کی آبادی میں مسلسل تبدیلی لانا جنگی جرم اور نسلی صفائی کے مترادف ہے۔

مستقبل کی صورتحال

جولیٹ ٹوما نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کو ایک خاموش جنگ کا سامنا ہے جس میں ان کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اور لوگوں کے روزگار میں کمی کی وجہ سے غربت بڑھ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: صیہونی افواج کے ہاتھوں ماری جانے والی 10 سالہ راشا کی وصیت پر من و عن عمل کیوں نہ ہوسکا؟

انہوں نے کہا کہ جنین، تلکرم اور نورشمس پناہ گزین کیمپوں میں اسرائیلی فوج کی کارروائیاں فلسطینیوں کی زندگیوں کو مزید مشکلات میں مبتلا کر رہی ہیں جس کی سنہ 1967 کے بعد کوئی نظیر نہیں ملتی۔

یاد رہے کہ اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیل 60 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید کرچکا ہے جن میں خواتین اور بچوں کی بہت بڑی تعداد شامل ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp