خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی جانب سے ایک سزا یافتہ قیدی سے مشاورت کا مطالبے آئینی اور اخلاقی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے آئین کے تحت یہ حلف اٹھایا تھا کہ وہ ایمانداری، دیانتداری سے اور آئین و قانون کے مطابق اپنے فرائض انجام دیں گے۔ تاہم صوبائی معاملات چلانے سے قبل ایک سزا یافتہ قیدی سے مشاورت کا مطالبہ ان کے اس حلف کی صریح خلاف ورزی تصور کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں کابینہ کی تشکیل، عمران خان نے سہیل آفریدی کو اہم پیغام پہنچا دیا
آئین کے مطابق وزیراعلیٰ کو صوبے کے انتظامی امور خودمختاری کے ساتھ چلانے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ کسی نااہل یا بیرونی شخص سے رہنمائی لینا صوبائی خودمختاری اور آئینی ڈھانچے کو متاثر کرتا ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا ایک ایسے شخص سے رہنمائی لینے پر اصرار جو متعدد مقدمات میں سزا یافتہ اور نااہل قرار دیا جا چکا ہے، آئینی حدود سے تجاوز ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں واضح طور پر قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 یا 63 کے تحت نااہل شخص کسی سیاسی جماعت کی سربراہی نہیں کر سکتا اور نہ ہی پارلیمانی یا جماعتی معاملات میں کسی حیثیت سے مداخلت کر سکتا ہے۔
عدالت نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ عمران خان کی 2022 کی نااہلی انہیں 2027 تک کسی بھی سیاسی یا قیادت کے عہدے کے لیے نااہل بناتی ہے۔
آئین یا کسی صوبائی قانون میں وزیراعلیٰ کو کسی سیاسی رہنما، بالخصوص قانونی طور پر نااہل شخص سے صوبائی امور میں مشاورت کرنے کا پابند نہیں بنایا گیا۔ اس نوعیت کی ہدایت آئین سے متصادم اور اخلاقی طور پر بھی ناقابلِ قبول ہے۔
خیبرپختونخوا پاکستان کے اہم ترین صوبوں میں سے ایک ہے اور اس کی حکمرانی کو کسی مجرم یا سزا یافتہ شخص کی ذاتی وفاداریوں یا سیاسی احکامات کا یرغمال نہیں بنایا جا سکتا۔
مزید پڑھیں: سہیل آفریدی کی عمران خان سے پھر ملاقات نہ ہوسکی، توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے کا اعلان
صوبائی انتظام کو سیاسی مقاصد کے لیے معطل کرنا یا کسی نااہل رہنما کو خوش کرنے کے لیے گورننس متاثر کرنا نہ صرف قانون اور حکمرانی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے بلکہ ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔














