پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق باجوڑ میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب دہشتگردوں کی نقل و حرکت بروقت شناخت کر لی گئی۔
سیکیورٹی فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے دہشتگردوں کی دراندازی کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔
یہ بھی پڑھیں:ٹانک میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی، فتنہ الخوارج کے 8 دہشتگرد ہلاک
فوجی ترجمان کے مطابق کارروائی کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں 4 دہشتگرد مارے گئے، ہلاک ہونے والوں میں کالعدم تنظیم کا اہم کمانڈر اور انتہائی مطلوب دہشتگرد خارجی امجد عرف مزاحم شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق امجد عرف مزاحم، دہشتگرد نور ولی کا نائب اور بھارتی حمایت یافتہ ’فتنہ الخوارج‘ کی رہبری شورا کا سربراہ تھا۔

حکومت پاکستان نے اس کے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی۔ وہ افغانستان میں مقیم رہ کر پاکستان میں متعدد دہشتگرد کارروائیوں کی منصوبہ بندی میں ملوث رہا۔
آئی ایس پی آر نے بیان میں کہا کہ ’فتنہ الخوارج‘ کی قیادت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشتگردوں کی دراندازی کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہے تاکہ ملک کے اندرونی استحکام کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:بلوچستان میں دہشتگردی کرنے والا فتنہ الہند کا انتہائی مطلوب دہشتگرد ہلاک
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ واقعہ اس موقف کی تصدیق کرتا ہے کہ افغان سرزمین بدستور پاکستان مخالف عناصر کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔
ترجمان نے عبوری افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ اس سلسلے میں مؤثر اقدامات کرے تاکہ افغان سرزمین کسی بھی دہشتگرد سرگرمی کے لیے استعمال نہ ہو۔

ترجمان کے مطابق علاقے میں تلاشی اور تطہیری کارروائی جاری ہے تاکہ کسی بھی بھارتی حمایت یافتہ دہشتگرد کو پکڑا جا سکے۔
بیان میں کہا گیا کہ سیکیورٹی فورسز ’عزمِ استحکام‘ کے تحت انسدادِ دہشتگردی مہم کو پوری قوت کے ساتھ جاری رکھیں گی تاکہ غیر ملکی حمایت یافتہ دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔
مہلک دہشتگرد نیٹ ورک کا خاتمہ
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق قاری امجد کی ہلاکت ٹی ٹی پی کی قیادت اور آپریشنل ڈھانچے کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ وہ دیر لوئر، بلامبٹ اور منڈا میں ہونے والے متعدد دہشتگرد حملوں میں ملوث تھا، جن کے مقدمات 2010 اور 2011 سے درج تھے۔
امریکی پابندیوں کے تحت دہشتگرد
قاری امجد پر شہریوں اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں کی منصوبہ بندی کے الزامات کے باعث امریکا نے 2022 میں اس پر عالمی پابندیاں عائد کی تھیں۔ حکومتِ پاکستان نے بھی اس کے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی اور وہ ملک کے انتہائی مطلوب دہشتگردوں میں شامل تھا۔
تعلیم دشمن کارروائیوں کا ماسٹر مائنڈ
قاری امجد نے قبائلی اضلاع میں لڑکیوں کے اسکولوں پر بم حملوں کی منصوبہ بندی اور نگرانی کی، جو تعلیم اور خواتین کے بااختیار ہونے کے خلاف ٹی ٹی پی کی انتہاپسندانہ سوچ کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
ڈرون اور ٹیکنالوجی سے لیس حملے
ذرائع کے مطابق قاری امجد ٹی ٹی پی کے جدید کوآڈ کاپٹر یونٹس کی قیادت کررہا تھا جو ڈرونز کے ذریعے نگرانی اور دھماکہ خیز مواد گرانے کے حملے انجام دیتے تھے۔ یہ گروپ کے ہائبرڈ اور ٹیکنالوجی پر مبنی جنگی طریقوں کی جانب منتقلی کی واضح علامت ہے۔
سرحد پار حملوں کا منصوبہ ساز
قاری امجد سرحد پار سے پاکستان میں دراندازی، اسنائپر حملوں اور تخریب کاری کی کارروائیوں میں ملوث تھا۔ اس نے 2020 میں بن شاہی سیکٹر پر حملے کی منصوبہ بندی بھی کی تھی اور افغان سرزمین سے زور براول کے راستے دہشتگردوں کے چھوٹے گروہ پاکستان بھیجے تھے۔
خفیہ معلومات پر مبنی کارروائی
اطلاعات کے مطابق قاری امجد کی نقل و حرکت کو 2 ہفتوں سے خفیہ ادارے مسلسل ٹریک کر رہے تھے۔ وہ حال ہی میں مفتی نور ولی محسود کی ہدایت پر افغانستان سے پاکستان داخل ہوا تھا، جہاں سیکیورٹی فورسز نے باجوڑ میں ایک درست اور محدود آپریشن کے دوران اسے ہلاک کردیا۔
انسدادِ دہشتگردی میں بڑی کامیابی
فوجی حکام کے مطابق قاری امجد کی ہلاکت پاکستان کے انسدادِ دہشتگردی آپریشنز میں ایک بڑی پیشرفت ہے، جس سے ٹی ٹی پی کی اعلیٰ قیادت کمزور ہوئی ہے اور ملک کے دشمنوں کے خلاف قومی عزم مزید مضبوط ہوا ہے۔
قاری امجد کون تھا؟
قاری امجد، جسے ’مفتی حضرت‘ یا ’مفتی مزاحم‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، ٹی ٹی پی کی شوریٰ کا اہم رکن اور مفتی نور ولی محسود کے بعد دوسرا بڑا رہنما تھا۔
وہ نہ صرف تنظیم کی منصوبہ بندی میں پیش پیش تھا بلکہ میدانِ عمل میں بھی سرگرم کردار ادا کرتا رہا۔ امریکا نے 2022 میں اسے عالمی دہشتگرد (Specially Designated Global Terrorist) قرار دیا تھا۔
قاری امجد نے خیبرپختونخوا اور سابقہ فاٹا میں متعدد خودکش حملوں، بارودی سرنگوں کے دھماکوں اور سرحدی چوکیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کی۔

وہ خاص طور پر لڑکیوں کے اسکولوں کو نشانہ بنانے اور تعلیمی اداروں کی تباہی کے لیے بدنام تھا۔ اس نے ٹی ٹی پی کے اندر ڈرون اور کوآڈ کاپٹر ٹیمیں تشکیل دیں جو سرحدی چوکیوں پر بم گرانے کی کارروائیوں میں ملوث تھیں۔
اس کے علاوہ وہ تنظیم کے اندر نئی دہشتگرد تکنیکوں اور تربیتی مراکز کے قیام میں بھی پیش پیش رہا۔
قاری امجد کی ہلاکت سے ٹی ٹی پی کے کمانڈ اینڈ کنٹرول ڈھانچے کو سخت دھچکا پہنچا ہے۔ اس واقعے کے بعد تنظیم کے باجوڑ، سوات اور شمالی وزیرستان کے نیٹ ورکس کے درمیان رابطے اور ہم آہنگی متاثر ہوئی ہے۔

سیکیورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ کامیابی پاکستان کی انٹیلی جنس پر مبنی انسدادِ دہشتگردی حکمتِ عملی کی بڑی پیش رفت ہے اور اس سے ملک کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں دہشتگرد نیٹ ورکس مزید کمزور ہوں گے۔













