پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو ایک گیم چینجر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور گزشتہ برسوں میں اس پراجیکٹ کے تحت کافی اہم منصوبے مکمل ہوئے ہیں لیکن ایک تاثر یہ ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر کام کی رفتار سست ہو چکی ہے۔
وی نیوز نے اس حوالے سے منصوبے پر کام کرنے والے کچھ ماہرین سے ان کی آرا جاننے کی کوشش کی ہے کہ آیا یہ تاثر درست ہے یا نہیں۔
مزید پڑھیں
وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے اپنے حالیہ دورہ چین میں ایم ایل ون منصوبے پر دوبارہ سے دستخط کیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اسپیس ریسرچ سینٹر منصوبہ، 800 کلو میٹر موٹرویز اور اس کے علاوہ سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی اور چینی میڈیا کے درمیان اشتراک اور تعاون بڑھانے کے منصوبوں پر بھی دستخط کیے۔ لیکن اقتصادی راہداری منصوبے پر کام کی سست روی کا تاثر کس حد تک درست ہے؟۔
اقتصادی راہداری منصوبہ سست روی کا شکار نہیں، ضمیر اسدی
پاکستان کے سرکاری میڈیا اور چینی میڈیا کے لیے کام کرنے والے صحافی اور بین الاقوامی امور کے ماہر ضمیر اسدی جو نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے حالیہ دورہ چین میں پاکستانی میڈیا وفد میں شامل تھے انہوں نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبہ سست روی کا شکار ہونے کا تاثر بالکل غلط ہے۔
انہوں نے کہاکہ اقتصادی راہداری منصوبے کے پہلے مرحلے میں موٹرویز اور توانائی کے منصوبے شامل تھے، پہلے مرحلے میں گوادر بندرگاہ اور گوادر ایئرپورٹ بنا اور ان منصوبوں پر 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی جس سے 8 ہزار کلومیٹر سڑکیں اور 5 ہزار میگاواٹ بجلی پاکستان کے قومی گرڈ میں شامل ہوئی۔ اب وہ منصوبے ایک تو زیادہ دکھائی دیتے ہیں اور دوسرا 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی ایک بڑی سرمایہ کاری تھی۔
یہ بھی پڑھیں باجوڑ دھماکا کیا سی پیک پر پیش رفت روکنے کی کوشش ہے؟
انہوں نے بتایا کہ اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے میں جو منصوبے بننے ہیں ان میں زراعت اور ٹیکنالوجی کے منصوبے شامل ہیں جو کہ تھوڑے تکنیکی نوعیت کے منصوبے ہیں اور ان پر اتنی لاگت بھی نہیں آئے گی جتنی پہلے مرحلے میں موٹرویز اور توانائی کے منصوبوں پر آئی تو اس لیے یہ تاثر بنتا ہے کہ شاید اقتصادی راہدی منصوبے پر کام کی رفتار سست ہو گئی ہے۔
ضمیر اسدی کے مطابق دوسرے مرحلے میں پشاور سے کراچی تک ریلوے لائن کو ڈبل ٹریک کرنے کا ایم ایل ون منصوبہ اور انڈسٹریل زونز کا قیام اہم منصوبے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے حالیہ دورے میں جن منصوبوں پر دستخط کیے یہ ایک طرح سے مفاہمتی یادداشتیں تھیں اور جب بھی نئی سیاسی حکومت آئے گی ان منصوبوں پر دوبارہ سے دستخط ہوں گے۔
اںہوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے کے منصوبے تکنیکی نوعیت کے ہیں اور دوسرا ان کی سست روی میں ایک تو کرونا وبا، دوسرا پاکستان میں سیاسی عدم استحکام جیسے عوامل شامل ہیں۔ جن کی وجہ سے چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری کا فلو کم ہوا لیکن دونوں ملکوں کی حکومتوں کے درمیان کوئی مسائل نہیں اور یہ کہنا مناسب نہیں کہ اقتصادی راہدری منصوبہ پر پیش رفت نہیں ہو رہی۔
اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے میں سوفٹ منصوبے زیادہ ہیں، سید شمس الحسن
کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کے چائنہ اسٹڈی سینٹر میں چینی امور کے ماہر سید شمس الحسن نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی راہدی منصوبے کے دوسرے مرحلے میں کچھ بڑے منصوبوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے منصوبوں کی تعداد زیادہ ہے اور اس کا فوکس ہماری سماجی اور معاشی ترقی پر ہوگا۔ دوسرے مرحلے میں ایسے منصوبے شامل ہیں جن میں پیپل ٹو پیپل کونٹیکٹ، سیاحت، طالب علموں اور میڈیا وفود کے تبادلے شامل ہیں۔
انہوں نے کہاکہ یہ کہنا بھی خارج از امکان نہیں کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کی وجہ سے اقتصادی راہداری منصوبہ سست روی کا شکار ہوا۔ جب کراچی میں کنفیوشس سینٹر پر حملہ ہوا تو چین نے نا صرف کراچی بلکہ لاہور اور اسلام آباد میں قائم کنفیوشس سینٹرز سے بھی اپنے عملے کو واپس بلا لیا تھا۔ لیکن اقتصادی راہدی منصوبہ دراصل حکومتوں کے درمیان نہیں بلکہ دو ریاستوں کے درمیان ایک منصوبہ ہے اور اس طرح کے منصوبے مکمل ہو ہی جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں پاک چین اقتصادی راہداری دوستی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے، چینی صدر کا سی پیک کی دسویں سالگرہ پر پیغام
سید شمس الحسن کے مطابق حکومتوں کی تبدیلی سے منصوبوں کا فوکس شفٹ ضرور ہو جاتا ہے جیسا کہ گوادر کے بجائے تھر منصوبہ زیادہ اہمیت اور توجہ اختیار کر سکتا ہے لیکن ریاستوں کے درمیان منصوبے بالآخر مکمل ہو ہی جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دوسرے مرحلے کے منصوبوں میں سست روی کی وجہ ہماری حکومتی کارکردگی بھی ہے جیسا کہ ہمارے کچھ چینی دوست گلہ کرتے ہیں کہ گوادر میں ابھی تک بجلی نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دوسرے مرحلے میں بھی کچھ توانائی کے منصوبے شامل ہیں اور اس کے علاوہ خصوصی اقتصادی زونز کا قیام۔ یہ زونز جب کام کرنا شروع کریں گے تو پاکستان میں بے روزگاری کم ہو گی اور برآمدات بڑھنے کی وجہ سے پاکستان کا تجارتی خسارہ کم ہو گا۔