اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو گزشتہ کئی ماہ سے اس بات پر قائم ہیں کہ غزہ میں قید یرغمالیوں کو واپس لانے کا واحد راستہ فوجی اور سیاسی دباؤ ہے۔ شروع سے ہی ان کی یہی پالیسی رہی ہے، حالانکہ نومبر میں جنگ بندی ہوئی تھی جس میں بڑی تعداد میں اسرائیلی اور غیر ملکی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔
الجزیرہ کے مطابق اب نیتن یاہو نے کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی کا الزام حماس پر عائد کیا ہے جبکہ حماس نے اسرائیلیوں کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ فریقین کے لیے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حماس جنگ کا خاتمہ اور غزہ کی پٹی سے اسرائیلی افواج کا انخلا چاہتی ہے، جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہونے جا رہا ہے، اور اگر لڑائی میں وقفہ آتا بھی ہے تو جنگ جاری رہے گی۔
مزید پڑھیں
نیتن یاہو بین الاقوامی اور داخلی سطح پر بہت زیادہ دباؤ میں ہیں۔ اسرائیلی اور اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ کئی ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں اور ان کی برطرفی اور نئی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے پیاروں کو واپس لانے کے لیے معاہدہ کرسکیں۔
مظاہرین 7 اکتوبر کے لیے نیتن یاہو کو مؤرد الزام ٹھہراتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس جنگ کو قریبا 200 دن گزر چکے ہیں، ان کی پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ اب انہیں خدشہ ہے کہ قیدیوں کو واپس لانے سے توجہ ہٹ رہی ہے، وہ محسوس کرتے ہیں کہ ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی اور رفح پر حملے کے منصوبے کے باعث قیدیوں کی واپسی کا معاملہ پس پشت پڑ گیا ہے۔