امریکا کی وفاقی اپیلٹ عدالت کے منقسم 3 رکنی بینچ نے 9/11 دہشت گرد حملوں میں ملوث 3 ملزمان کے ساتھ طے شدہ پلی بارگین یعنی اعترافِ جرم کے بدلے رعایت کو منسوخ کر دیا ہے، ان حملوں میں 2001 میں 2,976 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
واشنگٹن ڈی سی کی یو ایس کورٹ آف اپیلز کے بینچ نے ایک کے مقابلے میں 2 جج کی اکثریتی رائے سے فیصلہ دیا کہ سابق امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے قانوناً ان تینوں ملزمان کے ساتھ طے شدہ پلی بارگین منسوخ کرنے کا اختیار استعمال کیا۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ان ملزمان میں مبینہ 9/11 منصوبہ ساز خالد شیخ محمد بھی شامل ہے، یہ تینوں افراد کیوبا کے گوانتانامو بے میں امریکی فوجی حراستی مرکز میں قید ہیں، جہاں گزشتہ سال ایک فوجی عدالت نے پلی بارگین کی منظوری دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ نائن الیون کے اثرات 22 برس بیت جانے کے بعد بھی باقی
تاہم، لائیڈ آسٹن نے صرف دو دن بعد ان معاہدوں کو منسوخ کر دیا، جس کے بعد یہ سوال اٹھا کہ آیا اُن کے پاس ایسا کرنے کا قانونی اختیار تھا یا نہیں۔
پلی بارگین کے تحت ان افراد کو سزائے موت سے بچا کر عمر قید کی سزا دی جانی تھی، مگر آسٹن چاہتے تھے کہ مقدمہ ٹرائل کے ذریعے چلے اور سزائے موت کی گنجائش برقرار رہے۔
یہ مقدمات گزشتہ 20 سال سے مختلف پیشگی سماعتوں اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے التوا کا شکار ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکا میں پاکستانی ڈاکٹر کو دہشتگردی کے ارادے پر 18سال قید
فوجی پروسیکیوٹرز کا مؤقف تھا کہ پلی بارگین ہی اس مقدمے کو نمٹانے کا مؤثر راستہ ہے، فوجی عدالت نے ان معاہدوں کی منظوری دے دی تھی، جب کہ ملزمان کے وکلا کا مؤقف تھا کہ وزیر دفاع کو یہ اختیار نہیں کہ وہ معاہدے صرف اس لیے منسوخ کریں کہ انہیں ان کی شرائط پسند نہیں۔
تاہم وفاقی عدالت نے اپنے حالیہ فیصلے میں یہ قرار دیا کہ لائیڈ آسٹن کے پاس معاہدے ختم کرنے کا قانونی اختیار موجود تھا۔
اب ملزمان کے وکلا اس فیصلے کے خلاف واشنگٹن ڈی سی کی مکمل بینچ کے سامنے اپیل دائر کر سکتے ہیں یا معاملہ سپریم کورٹ میں لے جا سکتے ہیں۔













