پاکستان میں سابق حکمراں جماعت تحریک انصاف کے رہنما اور ورکرز نو مئی کے پرتشدد احتجاج کے بعد سول اور ملٹری کورٹس میں مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔
سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بہت قریب سمجھے جانے والے متعدد پارٹی رہنما ان کا ساتھ مکمل یا جزوی طور پر چھوڑ چکے ہیں۔
جلاؤ گھیرا، تشدد، پرتشدد سرگرمیوں پر اکسانے جیسے الزامات میں پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی مسلسل گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے ایسے میں پی ٹی آئی کی طاقت سمجھے جانے والے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر صورتحال ملی جلی ہے۔
ماضی میں عمران خان کی حمایت کرنے والے ایکٹیوسٹ ہوں یا صحافت سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے اندرون ملک اور بیرون ملک مقیم افراد، کئی ایسے ہیں جو ماضی جیسے جوش وجذبے کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔
چند روز قبل تک عمران خان اور تحریک انصاف کی سوشل میڈیا اسٹریٹیجی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرنے والے ٹوئپس کا یہ بدلا انداز دیکھنے والوں سے اوجھل نہ رہا تو کئی افراد نے اس کی نشاندہی کی۔
پاکستان صحافی نعمت خان نے ایسے ہی ایک تبصرے میں برطانیہ میں مقیم پی ٹی آئی ایکٹیوسٹ احتشام الحق کی ٹویٹ پر تبصرہ میں لکھا کہ ’احتشام بھی بدل گئے ہیں۔‘
احتشام ھم لاڑو بدل شو https://t.co/UNdgbha4JV
— Naimat Khan (@NKMalazai) May 24, 2023
امریکا میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے فواد چوہدری کی ایک سابقہ ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے شعری تبصرہ کیا جو ’کل اور آج‘ کے فرق سے متعلق تھا۔
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج اُن کا سر عرش بریں تھا https://t.co/40ufyRqScj— Husain Haqqani (@husainhaqqani) May 25, 2023
اندرون ملک مقیم سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کا انداز اور لہجہ تو بدلا البتہ پاکستان سے باہر مقیم کچھ پی ٹی آئی حامی اب بھی سابقہ روش برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ان میں کچھ افراد کو مسلسل ’غلط خبریں پھیلانے اور یوٹیوب ڈالرز کے لیے قوم کو گمراہ کرنے‘ کے الزام کا بھی سامنا ہے۔
عمران خان کی بظاہر حمایت اور فوج کی مخالفت کرنے والے بیرون ملک مقیم افراد میں سے ایک عادل راجہ کے متعلق دعوی کیا گیا کہ ’صرف تین دن میں ایسی جعلی خبریں پھیلا کر اس شخص نے ایک کروڑ یوٹیوب سے کمایا۔‘
10 مئی 2023 کو عادل راجہ کا بیان
"مصدقہ ذرائع کی 100 فیصد کنفرم نیوز ہے کہ ہجوم قابو ہوگیا تو عمران خان کو قتل کردیا جائے گا اور ملک میں کرفیو لگا جائے گا"صرف تین دن میں ایسی جعلی خبریں پھیلا کر اس شخص نے ایک کروڑ یوٹیوب سے کمایا۔
میرا ایک بھی حملہ اسکی ذات پر نہیں ہوگا۔ pic.twitter.com/6jHeVoOrFC
— Dr Farhan K Virk (@FarhanKVirk) May 17, 2023
ماضی میں تحریک انصاف کی سوشل میڈیا سرگرمی کا اہم حصہ رہنے والے ڈاکٹر فرحان ورک ان افراد میں سے ہیں جو نہ صرف پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر چکے ہیں بلکہ قیادت اور پالیسیوں میں تضادات کی نشاندہی کرتے ہوئے دیگر ورکرز کو بھی انتہائی اقدام سے باز رہنے کی مسلسل تلقین جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لاہور میں مقیم مقدس فاروق اعوان چند روز قبل تک تحریک انصاف کی حامی ایکٹیوسٹ شمار کی جاتی تھیں، اب وہ بھی ماضی کے برعکس عمران خان یا ان کے موقف کو ہی درست مان کر پیش کرتے رہنے کے بجائے متبادل تجویز کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
ایک سال سے پورے پاکستان میں ٹینشن والا ماحول ہے، اگر الیکشن ہو جاتے ہیں اور عمران خان ایک بار وزیراعظم بن جائے گا تو کون سی قیامت آ جائے گی، وہ اپنے خاندان کا آخری سیاسی رہنما ہے، باقیوں کی تو نسلوں نے اس ملک پر حکمرانی کرنی ہے، زرا سوچیئے اور رحم کیجیے کچھ ملک پر
— Muqadas Farooq Awan (@muqadasawann) May 19, 2023
خود کو عمران خان کا حامی قرار دینے والے ٹوئپس کی جارحانہ سرگرمی پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ ایسا کرنے والے افراد نے پی ٹی آئی ورکرز کو خبردار کیا کہ وہ مذکورہ عناصر سے خود کو بچائے رکھیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی عرفان الحق نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ ’پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنوں سے گزارش ہے کہ باہر بیٹھے بھگوڑوں کے اشتعال دلانے پر بالکل توجہ نہ دیں۔‘
پی ٹی ئی کی قیادت اور کارکنوں سے گزارش ہے کہ باہر بیٹھے بھگوڑوں کے اشتعال دلانے پر باالکل توجہ نہ دیں ، حالات کے پیش نظر حکمت عملی بنائیں اور اپنی سیاست کو آگے بڑھائیں، مشکل وقت گزر جاتا ہے مگر بعض اوقات اتنا ذیادہ ڈیمج ہوتا ہے کہ بکھری ہوئی چیزیں سمیٹنے میں وقت لگ جاتا ہے۔
— Irfan ul Haque (@IrfanHaqueS) May 25, 2023
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی رضوان غلزئی نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ’ایک طرف میجر عادل راجہ نے مظاہرین کو اکسانے کی کوشش کی اور دوسری طرف کچھ سرکاری صحافی حکومت کو سیاسی کارکنان کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انتشار کے بینفشریز اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘
ایک طرف میجر عادل راجہ نے مظاہرین کو اکسانے کی کوشش کی اور دوسری طرف کچھ سرکاری صحافی حکومت کو سیاسی کارکنان کے خلاف اکسانے کی کوشش کررہے ہیں۔ انتشار کے بینیفشریز اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ عادل راجہ کی طرح ان عناصر کی بھی حوصلہ شکنی ہونی چاہئیے۔
— Rizwan Ghilzai (Student of Arshad Sharif) (@RizwanGhilzai) May 17, 2023
ڈیجیٹل میڈیا کے شعبہ سے وابستہ ٹیکنالوجی ماہر عمر سیف نے صورتحال پر تبصرہ میں پی ٹی آئی کو ’ناکام تجربہ سے سیکھنے‘ کا مشورہ دیا۔
There is much to learn from the failed experiment of PTI. My top 3:
1. The youth of this country feels let down by a party which started on such high principles, and ended with “but look everyone else is also just as bad”.
2. The injustice, and ruthless persecution of people…
— Umar Saif (@umarsaif) May 23, 2023
پی ٹی آئی ایکٹیوسٹ اور صحافی ملیحہ ہاشمی نے عمر سیف سے اختلاف کیا تو موقف اپنایا کہ ’آپ کی ٹویٹ کے نیچے تبصرہ کرنے والے نوجوانوں کی اکثریت آپ سے بالکل بھی متفق نہیں ہے۔‘
انور لودھی بھی سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے فعال حامی تسلیم کیے جاتے ہیں۔ وہ اب بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو عمران خان کو ہی مسائل کا حل قرار دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی خواتین کارکنان کے خلاف قانونی کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’اخبارات اور تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔۔ بنگلہ دیش میں بھی عورتوں کے ریپ کیے گئے تھے۔‘
اخبارات اور تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں.. بنگلہ دیش میں بھی عورتوں کے ریپ کیے گئے تھے
— Anwar Lodhi (@AnwarLodhi) May 24, 2023
خود تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی ملکی صورتحال پر تبصروں اور اپنے ردعمل کے لیے ماضی کی نسبت ٹوئٹر پر زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں انہوں نے ماضی کے برعکس ایک ایک دن میں متعدد ٹوئٹس کے ذریعے اپنے فالوورز تک اپنا پیغام پہنچایا ہے۔
ہم نے پاکستان میں ”جبری شادیوں“ کے بارے میں تو سُن رکھا تھا مگر تحریک انصاف کیلئے ”جبری علیحدگیوں“ کا ایک نیا عجوبہ متعارف کروایا گیا ہے۔
میں تو اس پر بھی حیران ہوں کہ اس ملک سے انسانی حقوق کی تنظیمیں کہاں غائب ہو گئی ہیں!
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) May 23, 2023
نو مئی کو سرکاری و نجی اور عسکری تنصیبات پر تحریک انصاف کے ورکرز کے حملوں کے بعد ان اقدامات کی مخالفت اور فورسز کی حمایت کرنے والوں کی تعداد میں بھی تبدیلی آئی ہے۔
ٹیلی ویژن میزبانی شفاعت علی نے ٹائم لائنز کے بدلے ماحول کا مشاہدہ کیا تو لکھا کہ ’میری ٹائم لائن پر اتنے سارے فوج کے حمایتی پہلے سے تھے یا سبھی نئے نئے اگے ہیں۔‘
میری ٹائم لائن پہ اتنے سارے فوج کے حمایتی پہلے سے تھے یا سبھی نئے نئے اگے ہیں؟
— Shafaat Ali (@iamshafaatali) May 17, 2023
بحیثیت مجموعی پاکستان میں سوشل ٹائم لائنز کی کیفیت یہ ہے کہ مشہور بیانیے پر گفتگو کر کے انگیجمنٹ لینے والے بیشتر اکاؤنٹس خاموش یا محتاط ہیں البتہ عمران خان کے کچھ حامی اب بھی اختلافی آوازیں بلند کر رہے ہیں۔