سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل ججز کی تقرری کے خلاف وفاقی حکومت کی درخواست 2ایک کی اکثریت سے خارج کر دی۔
سپریم کورٹ میں پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل ججز کی تقرری کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس محمد علی مظہربینچ کا حصہ تھے۔
کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ پارلیمانی کمیٹی نے پشاورہائیکورٹ کے ایڈشنل ججز جسٹس فہیم ولی، جسٹس اعجاز خان اور جسٹس کامران حیات کی منظوری دی جبکہ پارلیمانی کمیٹی نے ایڈیشنل ججز کے لیے فضل سبحان، شاہد خان اور خورشید اقبال کے نام واپس بھیج دیے تھے اور سینیئر ایڈیشنل ججز کے ناموں پر بھی غور کرنے کی تجویز دی، جوڈیشل کمیشن پارلیمنٹری کمیٹی برائے ججز تقرری کی تجویز پر غور کرے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہی وہ مجاز اتھارٹی ہیں جو ججز تقرری کی نامزدگی کا حق رکھتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے جسٹس منیب اختر سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 175 اے کے تحت کہاں لکھا ہے کہ ججز کی نامزدگی کا اختیار صرف متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو حاصل ہے؟ میں جب چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ تھا تو جوڈیشل کمیشن کے ہر ممبر سے مشاورت کرتا تھا، ہائیکورٹ میں ججز نامزدگی کا حتمی اختیار متعلقہ چیف جسٹس کو ہی حاصل ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا ججز کی تقرری میں اندھا دھند سینیارٹی کے اصول کو دیکھا جائے اور قابلیت کو بالائے طاق رکھیں؟ کیا ججز کی تقرری میں سینیارٹی اصول کے ساتھ میرٹ کو نہیں دیکھنا چاہیے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا جوڈیشل کمیشن کے معاملات پر پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری جوڈیشل ریویو کر سکتی ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیا پارلیمنٹری کمیٹی جوڈیشل کمیشن کو تجویز دے سکتی ہے؟ پارلیمنٹری کمیٹی صرف جوڈیشل کمیشن کی سفارش کی منظوری کرتی ہے۔
سپریم کورٹ نے 2ایک کی اکثریت سے درخواستیں خارج کر دی، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر نے درخواستیں خارج کیں، جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
واضح رہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے پارلیمنٹری کمیٹی برائے ججز تقرری کے فیصلے کے خلاف درخواستیں منظور کی تھیں، جس کے خلاف وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔