وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ دسویں جائزے کا کوئی امکان نہیں ہے، ہم نے تمام شرائط پوری کر دی ہیں، اب آئی ایم ایف کو اپنے نویں جائزہ پروگرام کو مکمل کر لینا چاہیے۔
اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بجٹ تجاویز پر غور کرنے کے لیے ایف بی آر میں بجٹ سے جڑے ٹیکس معاملات پر بزنس اور ٹیکنیکل معاملات پر دو مختلف کمیٹیاں بنائی جائیں گی۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے لیے وصولیوں کا ہدف 12163 ارب روپے ہے، پرائیویٹ پبلک سیکٹر کو لے کر چلنے سے ملک کا پہیہ چلے گا۔
وزیرِ خزانہ کا کہنا ہے کہ ایس ڈی پی میں صحت، تعلیم و سماجی سیکٹر، ٹرانسپورٹ کے لیے بجٹ مختص کیا گیا ہے، صوبوں کا ترقیاتی بجٹ 1559 ارب روپے ہے اور وفاق کا 1150 ارب کا ترقیاتی بجٹ ہے۔
موجودہ بجٹ روایت سے ہٹ کر بنانے کا دعوٰی کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ وہ 6 پوسٹ بجٹ پریس کانفرس کر چکے ہیں اور آج یہ ساتویں پریس کانفرنس ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرام پر شفاف طریقے سے عمل کی صورت میں نظام میں بہتری متوقع ہے۔ پچھلی حکومت نے پبلک قرضوں میں اضافہ کیا۔ قرضون کی ادائیگی کی مد میں اس بجٹ کا بڑا حصہ خرچ ہوگا۔
بجٹ کے اہداف حاصل کرنے کے عزم کو دہراتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال ترقی کی شرح کو ساڑھے 3 فیصد رکھا ہے۔ معاشی ترقی ہو گی تو ملک کا پہیہ صحیح چلے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ افراط زر کا ہدف 21 فیصد ہے جب کہ جی ڈی پی میں ٹیکسوں کا تناسب 8 اعشاریہ 7 فیصد ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضم اضلاع کیلئے 61 بلین روپے رکھے ہیں، ترقیاتی بجٹ کیلئے تاریخی رقم رکھی گئی ہے، وفاق کا ترقیاتی بجٹ 1150 ارب روپے مختص کیا گیا ہے، آئی ٹی اور سائنس کیلئے 33 ارب روپے رکھے گئے ہیں اور صوبوں کا ترقیاتی بجٹ 1559 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت نے سولر کو سستا کرنے کے اقدامات کیے ہیں، آٹا، گھی، چاول اور دالوں پر سبسڈی کے لیے 35 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، یوٹیلیٹی اسٹورز سبسڈی کی تمام سہولیات میسر ہوں گی۔
’ٹی وی پرخبردیکھی کہ دودھ پر سیلز ٹیکس لگ گیا ہے، بجٹ میں صرف تجاویز تھی کہ ڈبے کے دودھ پر ٹیکس لگایا جائے، واضح کرنا چاہتا ہوں کہ دودھ پر کوئی سیلز ٹیکس نہیں لگایا گیا۔‘
وزیر خزانہ نے کہا کہ ترسیلات زر بڑھانے اور گرین اینرجی کو فروغ دینے کے لیے نئے اقدامات کررہے ہیں، 50 ہزار ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کریں گے، ملک میں زرعی انقلاب لائیں گے، 2200 ارب روپے زراعت کے قرضوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ پر صحیح طریقے سے عمل ہو تو شرح نمو کا ہدف حاصل کر لیں گے، آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ شرح نمو 4 فیصد ہو سکتی ہے، شرح نمو بہتر ہو گئی تو روزگار کے مواقعے پیدا ہوں گے۔ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ قرضوں پر سود کی ادائیگی ہے اور یہی سب سے بڑا بوجھ ہے، چار سال میں قرض بھی دگنا ہو گیا اور شرح سود بھی 21 فیصد ہو گئی۔
’پاکستان ایٹمی قوت ہے اب معاشی قوت بھی بننا ہے، میرے نزدیک معاشی استحکام ہو چکا، اب ہم نے شرح نمو بڑھانے کی طرف جانا ہے۔‘
انکا مزید کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کی مہنگائی سے کمر ٹوٹ گئی ہے، اسی لئے ایک سے سولہ گریڈ کے ملازمین کو 35 فیصد، 17 سے 22 گریڈ تک 30 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا گیا ہے، پنشنرز کے لئے 17.5 فیصد اضافہ کیا ہے، جس کے بعد کم از کم پنشن 12 ہزار روپے ہو جائے گی۔
مزید پڑھیں
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بجٹ میں کل 1074ارب روپے کی سبسڈی رکھی ہے، اس میں 900 ارب روپے صرف پاور سیکٹر کے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت میں بڑے مسائل سبسڈی کے ہی تھے، خوردنی تیل درآمد پر سیلز ٹیکس ختم کرنےکی بھی بات درست نہیں ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اتنی بڑی کمی کی گئی لیکن ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں کمی نہیں کی اور عوام کو کوئی ریلیف ہی نہیں دیا گیا جبکہ میں نے تمام صوبوں کے چیف منسٹرز سے بھی درخواست کی کہ اس پر اقدامات کرائیں، جس پر مراد علی شاہ نے 40 کے قریب ٹرانسپورٹرز کو خط لکھے۔
صحافی کے سوال کے جواب میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بجٹ میں الیکشن کے لیے پیسے رکھے ہیں، اب میں چیف الیکشن کمشنر تو ہوں نہیں کہ یہ بتا سکوں الیکشن کب ہوں گے، ہم نے اپنا کام کر دیا ہے اب حکومت اور اپوزیشن پارٹی ہی طے کرے گی کہ الیکشن کب ہوں گے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بجٹ معاملات کے بعد دوست ممالک سے ہم ابھی سے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ پر بات چیت پر غور کریں گے، ہم اُن کے مکمل پیسے واپس کریں گے مگر قرض واپسی کا دورانیہ بڑھانے پر مذاکرات کریں گے۔