ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کملا ہیرس نے انتخابی مہم اور صدارتی انتخابات میں کامیابی کے لیے عرب امریکی ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق، کملاہیرس کی انتخابی مہم چلانے والی ٹیم کو یقین ہے کہ ریاست مشی گن میں کامیابی کے لیے عرب امریکی ووٹرز کی حمایت درکار ہوگی کیونکہ سب سے زیادہ عرب امریکی اسی ریاست میں مقیم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جنگ بند نہ کی تو خاموش نہیں رہوں گی، کملا ہیرس کا اسرائیل کو پیغام
ڈئیر بورن شہر کے میئر عبداللہ حمود کا کہنا ہے کہ بائیڈن کے صدارتی انتخابی دوڑ سے باہر ہونے کے بعد سے امید پیدا ہوئی ہے اور کملا ہیرس کو موقع ملا ہے کہ وہ کمیونٹی سے اس اتحاد کو قائم کریں جو بائیڈن کی صدارت کے آغاز میں تھا۔
عبداللہ حمود اور سبلانی سمیت متعدد عرب امریکی رہنما کملا ہیرس کی انتخابی مہم کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ وہ غزہ جنگ بندی کی پرزور حمایت کرتی ہیں یا نہیں۔
عرب امریکی رہنما کملا ہیرس کے بطور ڈیموکریٹ امیدوار انتخاب پر پرجوش ہیں لیکن وہ اس بات کا یقین کرنا چاہتے ہیں کہ کملا ہیرس امن کی آواز بنیں گی یا اسرائیل کی حامی کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: کملا ہیرس ٹرمپ الیکشن، چور سپاہی جیسا ہونے جا رہا ہے؟
گو کہ صدر بائیڈن غزہ جنگ بندی کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈال رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے حالیہ دورہ امریکا کے دوران اور امریکی کانگریس سے خطاب کے معاملے پر ڈیموکریٹ رہنماؤں میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔
فلسطینی امریکن رکن کانگریس رشیدہ طلیب کا تعلق بھی مشی گن ہی سے ہے اور ان کے ڈسٹرکٹ میں ڈیئر بورن بھی شامل ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے امریکی کانگرس سے خطاب کے دوران انہوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر ’وار کریمینل‘ لکھا ہوا تھا۔ کملا ہیرس نے کانگریس کے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی، وہ اس دوران انڈیاناپولس میں انتخابی مہم میں شریک تھیں۔
بعض عرب امریکی رہنماؤں نے کملا ہیرس کی کانگریس اجلاس میں عدم موجودگی کو مثبت کو سراہا ہے اور جمعرات کو نیتن یاہو سے ان کی ملاقات سے متعلق کہا ہے کہ وہ کملا ہیرس کی بطور نائب صدر ذمہ داریوں کو سمجھ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدارتی امیدوار کملا ہیرس کے بھارتی گاؤں والے کیا باتیں کر رہے ہیں؟
تاہم، کملا ہیرس غزہ اور امریکا کے مسلمانوں کی کس قدر ہمدرد ہیں، اس کا یقین اس وقت ہوگا جب انہیں اپنے نائب صدر کا انتخاب کرنا ہوگا۔ کملا ہیرس نے اس حوالے سے جو نام شارٹ لسٹ کیے ہیں ان میں پنسلوینیا کے یہودی گورنر جوش شاپیرو بھی شامل ہیں۔
امریکی عرب کمیونٹی کا کہنا ہے کہ پنسلوینیا کے یہودی گورنر جوش شاپیرو کو نائب صدارتی امیدوار نہیں بنانا چاہیے کیونکہ وہ فلسطینی مظاہرین کے شدید مخالف رہے ہیں۔
عرب امریکی شہری جانتے ہیں کہ مشی گن جیسی ریاستوں میں ان کی ووٹوں کی بہت اہمیت ہے۔ 2020 میں مشی گن کے عرب مسلمانوں نے بڑی تعداد میں صدرجوبائیڈن کے حق میں ووٹ دیے تھے۔
تاہم رواں برس فروری میں مشی گن سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ سے زائد ڈیموکریٹ ووٹرز نے فلسطین پر اسرائیلی حملے کی حمایت جاری رکھنے پر بائیڈن انتظامیہ کے خلاف احتجاجاً 2 ’غیرپابند‘ ڈیلی گیٹس کو کا انتخاب کیا، ان 2 ڈیلی گیٹس نے پرائمری انتخابات میں 36 ڈیلی گیٹس کی حمایت حاصل کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ امریکا، یہودیوں نے احتجاج کیوں کیا؟
اسرائیل مخالف گروپس نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی تمام ترسیل پر پابندی اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ عرب مسلمان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر کملا ہیرس اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی عائد کرتی ہیں تو وہ صدارتی انتخابات میں ان کی کامیابی کے لیے دن رات کام کریں گے۔
دوسری جانب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی مشی گن پر نظریں جمائے ہوئے ہیں اور ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، انہوں نے کملا ہیرس کو آئندہ صدارتی انتخابات میں ہرانے کا دعویٰ بھی کردیا ہے۔
ٹرمپ بھی عرب مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر انہیں گزشتہ دور حکومت اپنی امیگریشن پالیسی کے باعث مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ان کے داماد مسلمان اور لبنانی نژاد امریکی ہیں۔ وہ کئی عرب امریکی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کرچکے ہیں جن میں انہوں نے فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت کا اظہار بھی کیا ہے۔
صدارتی انتخابات سے قبل ڈیموکریٹ اور ریپبلکن امیدواروں کی جانب سے عرب امریکی مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا اور غزہ جنگ بندی اور فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت میں اعلان کرنا خوش آئند ہے لیکن وہ اپنے وعدوں پر کس حد تک قائم رہتے ہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔