امریکی صدارتی انتخابات سے دو روز قبل ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے پینسلوینیا میں ایک مذہب مخالف اور سازش سے بھری تقریر کی ہے جبکہ ان کی ڈیموکریٹک حریف کملا ہیرس نے ’میدان جنگ‘ سمجھی جانیوالی ریاست مشی گن میں تاریخی طور پر سیاہ فاموں سے منسوب ایک چرچ میں خطاب کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کو تمام سوئنگ ریاستوں میں کملا ہیرس پر نمایاں برتری حاصل
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے، 60 سالہ نائب صدر کملا ہیرس کو خواتین ووٹرز کی بھرپور حمایت سے تقویت ملی ہے جبکہ 78 سالہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہسپانوی خاص طور پر مرد ووٹروں کی حمایت سے اپنی پوزیشن مستحکم کرتے نظر آرہے ہیں۔
اپنی انتخابی مہم کے اختتامی حصے میں ان کا پنسلوانیا کی ریلی سے خطاب ان کی سابقہ معیاری تقاریر سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا تھا، ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کو گولی مار دیے جانے کے بارے میں بات کی اور کہا کہ انہیں 2020 میں صدر جو بائیڈن سے ہارنے کے بعد وائٹ ہاؤس نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔
سابق امریکی صدر نے 4 سال قبل اپنی انتخابی شکست اور اپنے خلاف مقدمات کے ضمن میں شکایات کو دہراتے ہوئے مکمل طور پر ’نااہل امریکی قیادت اور امریکی میڈیا‘ کے خلاف اپنے زبانی حملوں کو تیز کیا، اور وہیں انہوں نے پریس کے خلاف تشدد کے موضوع پر بھی اظہار خیال کیا۔
مزید پڑھیں: امریکی انتخابات میں سوئنگ اسٹیٹس کا فیصلہ کن کردار کیوں؟
منگل کے امریکی صدارتی انتخابات سے دو دن پہلے 90 منٹ کی تقریر میں، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اردگرد حفاظتی شیشے کے خول میں خالی جگہوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ انہیں مارنے کے لیے کسی کو جعلی خبروں کے ذریعے گولی مارنا پڑے گا، جس پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔
If Kamala wins, you are 3 days away from the start of a 1929-style economic depression. If I win, you are 3 days away from the best jobs, the biggest paychecks, and the brightest economic future the world has ever seen.
Kamala’s inflation nightmare has cost the typical American…
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) November 3, 2024
بے لگام بیان بازی
مہم کے آخری ہفتوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کی بیان بازی تیزی سے بے لگام ہو گئی ہے، سابق امریکی صدر کی جانب سے اس بیان کے بعد کہ ممتاز ریپبلکن نقاد اور کانگریس کی سابق رکن لز چینی کو جنگ میں گولی کا سمانا کرنا چاہیے، ریاست ایریزونا کے اعلیٰ پروسیکیوٹر نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکی انتخابات میں ووٹرز کا فراڈ نتائج پر اثرانداز کیوں نہیں ہوسکتا؟
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ لز چینی غیر ملکی جنگوں کی حمایت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گی اگر ان پر 9 بیرل گولیاں برسا رہی ہوں، ٹرمپ مہم کے ترجمان اسٹیون چیونگ نے میڈیا کے تبصروں کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ ٹرمپ میڈیا کی حفاظت کے لیے کوشاں ہیں۔
’حفاظتی شیشے کی جگہ کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا میڈیا کو نقصان پہنچانے یا کسی اور چیز سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، یہ ان کے خلاف دھمکیوں کے بارے میں تھا جو ڈیموکریٹس کی جانب سے خطرناک بیان بازی کی بدولت پروان چڑھایا گیا تھا۔‘
مزدی پڑھیں: امریکی صدارتی انتخابات، کون کتنا مقبول، عوامی سروے کیا کہتے ہیں؟
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر کا کافی حصہ ریلی میں نیوز میڈیا پر حملہ کرنے میں صرف کیا، ایک موقع پر ٹی وی کیمروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں اے بی سی نیوز کو جعلی خبریں سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ سی بی ایس، اے بی سی، این بی سی سب ان کی رائے میں سنگین کرپٹ لوگ ہیں۔
مشی گن میں کملا ہیریس
دونوں صدارتی امیدواروں نے مہم کے تقریباً اختتام پر بالکل مختلف لہجے کی پیشکش کی، ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کملا ہیرس نے اتوار کے روز مشی گن چرچ کی ایک جماعت کو بتایا کہ خدا نے امریکا میں موجود تقسیم و تفریق کو ٹھیک کرنے کے لیے کافی مضبوط منصوبہ فراہم کیا ہے۔
کملا ہیریس نے کہا کہ ووٹرز ’افراتفری، خوف اور نفرت‘ کو مسترد کر سکتے ہیں، انہوں نے مشی گن پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، ڈیٹرائٹ کے گریٹر ایمانوئل انسٹیٹیوشنل چرچ آف گاڈ ان کرائسٹ میں چند سو پیرشینرز کے ساتھ دن کا آغاز کیا۔
مزید پڑھیں: اسرائیل اور لبنان کا تنازعہ ختم کیا جائے، ٹرمپ
یہ لگاتار چوتھا اتوار تھا کہ جب بیپٹسٹ مسیحی کملا ہیرس نے ایک سیاہ فام اجتماع سے بات کی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’میدانِ جنگ‘ سمجھی جانیوالی متعدد ریاستوں میں، جنہیں سوئنگ اسٹیٹس بھی کہا جاتا ہے، سیاہ فام ووٹرز کتنی اہمیت کے حامل ہیں۔
انجیل کے عہد نامہ قدیم کا حوالہ دیتے ہوئے کملا ہیرس کا کہنا تھا کہ وہ عمل میں ایمان کو قابل ذکر طریقوں سے دیکھتی ہیں۔ ’میں دیکھ رہی ہوں کہ ایک قوم نفرت اور تقسیم کا صفحہ پلٹنے اور آگے بڑھنے کا ایک نیا راستہ طے کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘
مزید پڑھیں: امریکی صدارتی انتخابات میں کیا کچھ، کب اور کیسے ہوتا ہے؟
کملا ہیرس کا کہنا تھا کہ جب وہ انتخابی مہم کے دوران مخلتف ریاستوں کا سفر کرتی ہیں تو وہ نام نہاد سرخ اور نیلی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے امریکیوں کو دیکھتی ہیں جو تاریخ کے قوس کو انصاف کی جانب موڑنے کے لیے تیار ہیں۔‘
اپنے اس خطاب میں کملا ہیرس نے ڈونلڈ ٹرمپ کا تذکرہ نہیں کیا لیکن انہوں نے اپنے دوستانہ سامعین کو بتایا کہ ایسے لوگ ہیں جو تقسیم کو گہرا کرنے، نفرت کے بیج بونے، خوف پھیلانے اور افراتفری پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔