صاف فضا میں سانس لینا بھی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔ اس اعتبار سے ہمارا شمار نچلے ممالک میں ہے۔ سنہ 2021 کی عالمی ایئر کوالٹی رپورٹ میں ہم غیر معیاری آب و ہوا کے تیسرے پائیدان پر کھڑے ہیں۔ ییل یونیورسٹی کی فضائی پرفارمنس انڈیکس ( 2022) میں ہم 180 ممالک کی فہرست میں چوتھے بد تر ملک ہیں۔
آلودہ ہوا کے انڈیکس میں گزشتہ 5 برس سے پہلے اور دوسرے درجے کے لیے دلی اور لاہور میں سخت مقابلہ ہے مگر اس بار اچانک ملتان نے ان دونوں شہروں کو ہرا دیا۔ ملتان میں 8 نومبر کو ایئر کوالٹی انڈیکس 2000 سے تجاوز کر گیا۔ اس دن لاہور میں انڈیکس 781 تھا۔
عالمی ادارہ صحت کے چارٹ کے مطابق ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) میں صفر سے 50 اے کیو آئی کی فضا صحت مند ہے۔ 200 اے کیو آئی سے اوپر کی ہوا انسانی صحت کے لیے مضر ہے جبکہ 300 اے کیو آئی پر ایمرجنسی نافذ ہو جانی چاہیے۔ ایئر کوالٹی کے چارٹ میں اس وقت علی الترتیب مونٹریال، ٹورنٹو، اوسلو، ہیوسٹن اور سڈنی 5 بہترین شہر ہیں جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس 7 سے 16 کے درمیان ہے۔
اس اعتبار سے 2000 اے کیو آئی والے ملتان میں تو کسی شہری کو زندہ ہی نہیں رہنا چاہیے اور 700 سے اوپر اے کیو آئی والے دلی اور لاہور کو تو کب کا اجڑ جانا چاہیے لیکن ہم من حیث القوم کوویڈ کو بنا ماسک پہنے شکست دے سکتے ہیں تو ایئر کوالٹی کیا بیچتی ہے۔
ویسے تو دیگر علاقوں میں عموماً 4 موسم ہوتے ہیں مگر زرا وکھری نظر آنے کی شوقین 5 دریاؤں کی سرزمین کے موسم بھی 5 ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ سے گھبرانا نہیں، بہت گھبرانا ہے
سرما، بہار، گرما، خزاں، اسموگ۔ اندھادھند شہر کاری ( اربنائزیشن ) بے لگام صنعت کاری اور دھواں دھار پہیہ بردار آسودگی (ٹرانسپورٹیشن) کی مدد سے 5واں موسم ہم نے خود ایجاد کیا اور اب بیٹھے رو رہے ہیں کہ اس 5ویں سے جان کیسے چھڑائیں؟
پنجاب (بالخصوص وسطی و شمالی گنجان و صنعتی پنجاب) تقریباً 8 ہزار کلو ٹن آلودگی سالانہ فضا میں بکھیرتا ہے۔ فضائی آلودگی میں 39 فیصد حصہ ٹرانسپورٹ، 24 فیصد صنعت، 16 فیصد کوئلے اور فرنس آئل استعمال کرنے والے بجلی گھروں کا، 11 فیصد زراعت اور 9 فیصد حصہ گھریلو صنعت، ریستورانوں، کاروباری مراکز اور گھروں کے کچرے کا ہے۔
حکومت پنجاب کہتی ہے کہ 30 فیصد آلودگی بھارتی پنجاب سے آتی ہے اور اس کی روک تھام کے لیے گرین ڈپلومیسی کی ضرورت ہے۔ مگر گرین ڈپلومیسی تو تب بارآور ہو گی جب ہم اس سوال کا جواب دے سکیں کہ اپنے ہاں پیدا ہونے والی 70 فیصد آلودگی پر قابو پانے کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ جو آسمان اکتوبر سے جنوری تک کے 4 ماہ ماحولیاتی گٹر بن جاتا ہے وہ سال کے باقی 8 ماہ کی کارستانی کا ہی نتیجہ تو ہے۔
ویسے بھی پاکستانیوں کو اوسطاً 365 دنوں میں سے 275 دن غیر معیاری ہوا میں ہی سانس لینا پڑتا ہے اور لاہور کا یہ عالم ہے کہ جنوری 2019 تا اگست 2024 ساڑھے 5 برس میں صرف 28 دن ایسے گزرے جنہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق شفاف فضا میں سانس لینے والے دنوں میں گنا جا سکتا ہے۔
باغات کا شہر کہلانے والی مغلیہ راجدھانی لاہور کا برا حال یوں بھی ہے کہ پنجاب میں رجسٹرڈ 2 کروڑ 15 لاکھ گاڑیوں میں سے 30 فیصد لاہور میں چل رہی ہیں۔ 88 فیصد صنعتیں یا تو شہری حدود میں یا پھر 20 کلومیٹر کے دائرے میں ہیں۔ صرف 10 فیصد فیکٹریاں مخصوص انڈسٹریل زونز میں ہیں۔
مزید پڑھیے: صحت + لالچ + منافع = مریض
فضائی آلودگی بڑھانے میں کوئی پیسہ پائی خرچ نہیں ہوتا مگر کنٹرول کرنا ایک مہنگا کھیل ہے۔ سرکار کہتی ہے کہ وہ تازہ قانون سازی اور پکڑ دھکڑ سمیت اقدامات کر رہی ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ فضائی آلودگی میں پچھلے ایک عشرے سے بالخصوص 25 فیصد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ ہم طویل المعیاد حکمت عملی صرف مرتب کرتے ہیں مگر اپنی توانائی صغیر المعیاد یا ایڈہاک حکمت عملی کے پیچھے بھاگ بھاگ کے خرچ کر دیتے ہیں۔
کوئی احتجاجی ریلی ہو تو اسے روکنے کے لیے سڑک پر 2 ٹرک ترچھے کھڑے کردو، ڈینگی کا موسم ہو تو شہر بھر میں دھواں دار اسپرے کردو اور اسموگ کا سیزن آئے تو اینٹوں کے کچھ بھٹے، چند فیکٹریاں سربمہر کردو، 100، 50 دھواں چھوڑتی گاڑیاں ضبط کرلو، جرمانوں کی رفتار تیز کردو، اسکولوں میں ہنگامی چھٹیاں کردو، گرین لاک ڈاؤن کر دو، ہیوی گاڑیوں کا داخلہ شہر میں عارضی طور پر معطل کر دو، اچانک گشت بڑھا دو اور پھر جنوری فروری کے بعد زندگی کو معمول کے ڈھرے پر اگلے اسموگ تک چلنے دو۔
یہ ہے وہ ایس او پی (اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر) جو ہماری گورنننس کے ڈی این اے میں گھس چکا ہے۔ انتظامی نسلیں بدلتی رہتی ہیں مگر ڈی این اے کہاں بدلتا ہے۔
جس طرح پنجاب نے کئی برس پہلے سری لنکا سے ڈینگی سے نمٹنے کی ترکیب حاصل کی اور اس پر عمل نہیں کیا۔ اسی طرح اپنے پکے دوست چین سے یہ پوچھنے میں کیا حرج ہے کہ انہوں نے آلودہ ترین دارلحکومت بیجنگ کو ماحول دوست شہر میں بدلنے کے لیے پچھلے ایک عشرے میں کیا گیدڑ سنگھی استعمال کی؟
مزید پڑھیں: لکیری فقیری سیکورٹی کے ششکے ۔۔۔
سنہ 2013 میں بیجنگ کے حکام نے ایک پنج سالہ ایکشن پروگرام شروع کیا۔ 10 برس سے زیادہ پرانی گاڑیوں کو ’فیز آؤٹ‘ کر دیا گیا۔ پیٹرول کی کوالٹی کو مغربی معیار تک لایا گیا۔ پبلک ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کو توسیع دی گئی تاکہ بیجنگ کے شہریوں کو انفرادی کے بجائے اجتماعی سفر کی سہولت برتنے کی عادت ہو سکے۔ ہیوی ٹرانسپورٹ کے لیے علیحدہ کوریڈورز بنائے گئے تاکہ وہ شہر سے پرے پرے ہی گزریں۔ کوئلے کے صنعتی استعمال کو مسلسل محدود کر کے اس کے سبسڈیزائڈ متبادلات متعارف کروائے گئے اور انہیں اپنانے کے لیے حتمی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی۔ ان دنوں الیکٹرک وہیکلز کے استعمال کو بڑھانے کی مہم جاری ہے تاکہ سنہ 2050 تک بیجنگ کا ایئر کوالٹی انڈیکس عالمی ادارہ صحت کے طے کردہ معیارات کو چھو سکے۔
ماحولیات خراب کرنے کا عمل سارا سال جاری رہتا ہے تو اسے بہتر بنانے کا عمل محض سال میں 4 مہینے کیسے جاری رہ سکتا ہے۔ یہ ایک مستقل جدوجہد ہے۔ اس سال بیجنگ کے بلدیاتی اداروں نے ماحولیات کی بہتری کے لیے ڈھائی ارب ڈالر کا بجٹ مختص کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کچھ بھی تو نیا نہیں ہو رہا
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمیں اتنی مہنگی نقالی کرنے کی ضرورت ہے مگر خراب ہوا کے سبب پھیلنے والی بیماریوں اور صحت پر ہونے والے خرچے کو شامل کر لیا جائے تو اس سے آدھے خرچے میں ایک کامیباب حکمت عملی پر مسلسل سختی سے مرحلہ وار عمل کرتے ہوئے 8 سے 10 برس میں فضائی آلودگی کو ختم نہیں تو 50 فیصد تک کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔
کبھی کبھی کوئی بڑا فلاحی کام فوٹو سیشن، واہ واہ، ووٹ بینک اور میڈیا کوریج ذہن میں رکھے بغیر بھی کر لیا جائے تو آپ سمیت سب ہی کا فائدہ ہے۔