شام میں بشار الاسد کی معزولی کے بعد ان کے کئی قریبی ساتھی، سینیئر فوجی افسران اور انٹیلی جینس حکام منظر سے غائب ہوچکے ہیں۔ ان کے بارے میں ملک چھوڑنے یا آبائی علاقوں میں روپوش ہونے کی اطلاعات ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کے ایلچی کا شام پر پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ
وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق اسد خاندان نے شام میں 50 سال جاری رہنے والے دور حکمرانی میں اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے حکومت پر سوال اٹھانے والوں کو مبینہ طور پر عقوبت خانوں میں رکھا جہاں مخالفین پر تشدد اور انہیں قتل کرنا معمول کی بات بتائی جا رہی ہے۔
شام میں عبوری حکومت قائم کرنے والی ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) اعلان کر چکی ہے کہ اسد دور میں ناانصافی کرنے والے حکومتی عہدے داروں کا احتساب کیا جائے گا۔
ایچ ٹی ایس کے سربراہ احمد الشرع جو ابو محمد الجولانی کے نام سے معروف ہیں یہ اعلان کرچکے ہیں کہ بیرون ملک جانے ولے مشتبہ افراد تک رسائی کے لیے ان ممالک کی حکومت سے رابطے کیے جائیں گے۔
تاہم بشار الاسد کی حکومت میں مظالم کے مرتکب افراد کو تلاش کرنا آسان نہیں ہوگا۔
لبنان کی سیکیورٹی فورسز کے مطابق حالیہ دنوں میں شام سے اندازاً 8 ہزار افراد لبنان کی سرحد میں مصنع کے مقام سے داخل ہوئے ہیں اور تقریباً 5 ہزار افراد بیروت ایئرپورٹ سے پڑوسی ممالک گئے ہیں۔
تاہم لبنان کے وزیرِ داخلہ بسام مولاوی کا کہنا ہےکہ کوئی شامی عہدے دار قانونی سرحدی گزرگاہوں سے لبنان میں داخل نہیں ہوا ہے۔
لبنانی سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ بظاہر اسد حکومت کے عہدے داروں کو لبنان میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے مصنع کی سرحدی گزرگاہ کے انچارج کو بشار الاسد کے بھائی سے دیرینہ روابط کی وجہ سے چھٹیوں پر بھیج دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیے: شامی صدر بشارالاسد نے ملک میں آخری چند گھنٹے کیسے گزارے؟
تاہم برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ’سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کے سربراہ رمی عبد الرحمان کا کہنا ہے کہ شام کی گزشتہ حکومت کے کئی افسران جعلی سفری دستاویزات تیار کرکے لبنان میں داخل ہوئے ہیں۔
شام کے معزول صدر بشار الاسد اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ ماسکو پہنچ چکے ہیں۔
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے انہیں سیاسی پناہ دینے کی پیش کش کی ہے۔ تاہم سابق شامی صدر کے قریب ترین سمجھے جانے والے کئی عہدے دار منظر سے غائب ہیں جن میں سے اہم ترین افراد یہ ہیں۔
ماہر الاسد
یہ معزول شامی صدر کے چھوٹے بھائی اور فوج کے فورتھ آرمرڈ ڈویژن کے کمانڈر تھے۔
شامی اپوزیشن ان پر قتل، تشدد، تاوان وصولی، منشیات کی اسمگلنگ اور حراستی مراکز چلانے کا الزام عائد کرتی ہے۔
ماہر الاسد پر امریکا اور یورپی ممالک پابندیاں عائد کرچکے ہیں۔
سیریئن وار آبزرویٹری کے مطابق ماہر الاسد گزشتہ ہفتے غائب ہوگئے تھے اور ممکنہ طور پر روس پہنچ چکے ہیں۔
گزشتہ برس فرانسیسی حکام نے ماہر الاسد اور ان کے بھائی سمیت 2 دیگر فوجی جنرلز کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
گرفتاری کے وارنٹ میں ان پر جنگی جرائم اور دمشق کے مضافات میں باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات شامل ہیں۔
میجر جنرل علی مملوک
مملوک صدر بشار الاسد کے سینئر سیکیورٹی مشیر اور سابق انٹیلی جینس چیف ہیں۔
وہ سنہ 2012 میں طرابلس میں ہونے والے دھماکوں کی وجہ سے لبنان میں مطلوب ہیں۔ اس دھماکے میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔
مملوک فرانس میں بھی مطلوب ہیں جہاں ایک عدالت نے انہیں دیگر افراد سمیت غیر حاضری میں جنگی جرائم پر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
یہ مقدمہ سنہ 2013 میں ایک شامی نژاد فرانسیسی شہری اور اس کے بیٹے کے دمشق میں اغوا، تشدد اور قتل میں مملوک اور دیگر حکام کے ملوث ہونے سے متعلق تھا۔
سیریئن وار مانیٹر کے سربراہ عبدالرحمان کے مطابق مملوک لبنان فرار ہو چکے ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ وہ اس وقت بھی حزب اللہ کی حفاظت میں ہیں یا نہیں۔
بریگیڈیئر جنرل سہیل الحسن
سہیل الحسن شام کی فوج کے 25 ویں مشن فورسز ڈویژن کے کمانڈر تھے۔ بعد ازاں سیریئن اسپیشل فورسز کے سربراہ بھی بنے۔
مزید پڑھیں: شامی عقوبت خانے سے اچانک رہائی پالینے والے شہری کی بے یقینی اور دگرگوں حالت، امریکی خاتون رپورٹر بھی آبدیدہ
سیریئن اسپیشل فورسز نے شام کی خانہ جنگی کے دوران حلب سمیت دمشق کے مضافات میں اسد حکومت کو کنٹرول واپس دلانے کے لیے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
حسن روس کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اور صدر پوٹن نے دورہ شام میں ان کی تعریف بھی کی تھی۔
بریگیڈیئر جنرل سہیل الحسن کے بارے میں تاحال معلوم نہیں ہے وہ کہاں ہیں۔