خیبر پختونخوا حکومت نے ضلع کرم تک زمینی رابطے کی بحالی کے سلسلے میں پارا چنار روڈ کو محفوظ بنانے کے لیے اسپیشل پولیس فورس کے قیام کے فیصلہ کی توثیق کی ہے، جس کے لیے مجموعی طور پر 399 خصوصی پولیس اہلکار بھرتی کیے جائیں گے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے 19ویں اجلاس میں بتایا گیا کہ مذکورہ سڑک کو محفوظ بنانے کے لیے ابتدائی طور پر عارضی پوسٹیں جبکہ مستقبل میں مستقل پوسٹیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ضلع کرم میں متحارب فریقین جنگ بندی آمادہ، پائیدار امن کی کوششوں پراتفاق
صوبائی کابینہ کے اجلاس کو ضلع کرم کی صورتحال اور اس سلسلے میں صوبائی حکومت کے اقدامات پر بریفنگ میں بتایا گیا کہ متحارب فریقین کے درمیان معاہدہ ہونے کے بعد سڑک کھولی جائے گی۔
بریفنگ کے مطابق علاقے میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بند کرنے کے لیے ایف آئی اے کا پورا سیل قائم کیا جائے گا، ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں یکم فروری تک تمام غیر قانونی ہتھیار جمع کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں:ضلع کرم میں راستے تاحال بند، شہری پریشان، گرینڈ جرگہ بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا
بریفنگ میں بتایا گیا کہ ضرورت کی بنیاد پر قانونی ہتھیاروں کے لیے لائسنس کے اجرا کے لیے محکمہ داخلہ میں خصوصی ڈیسک قائم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے، اسی طرح یکم فروری تک علاقے میں قائم مورچوں کو بھی مسمار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ علاقے میں ادویات کی کمی دور کرنے کے لئے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اب تک تقریباً 10 ٹن ادویات ضلع کرم کے تمام علاقوں کو فراہم کی گئی ہیں جبکہ علاقے میں غذائی اجناس کی دستیابی کے لیے رعایتی نرخوں پر گندم فراہم کی جارہی ہے۔
مزید پڑھیں:وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے ضلع کرم میں امن و امان کے لیے وفاق سے ایف سی کی پلاٹونز مانگ لیں
بریفنگ میں بتایا گیا کہ کرم میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کے ازالے کے لیے ادائیگیاں کی جاچکی ہیں، وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر علاقے کے عوام کو درپیش آمدورفت کے مسائل کے حل کے لیے ہیلی کاپٹر سروس شروع کی گئی ہے۔
بریفنگ کے مطابق گزشتہ 2 دنوں میں 220 افراد کو صوبائی حکومت کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ٹرانسپورٹ فراہم کی گئی، گزشتہ روز کرم کے مسئلے پر صوبائی ایپکس کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا گیا۔
مزید پڑھیں:ضلع کرم آگ میں، پی ٹی آئی حکومت لاپتا ہے، بلاول بھٹو زرداری
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ضلع کرم کا مسئلہ دہشتگردی کا نہیں بلکہ 2 گروپوں کے درمیان تنازعہ ہے، علاقے کے لوگ امن چاہتے ہیں لیکن کچھ عناصر فرقہ وارانہ منافرت کے ذریعے حالات کو خراب کررہے ہیں۔
’یہ عناصر مسئلے کو دوسرا رنگ دینے کے لیے غلط بیانیہ بنا رہے ہیں، علاقے میں غیر قانونی بھاری ہتھیاروں کی بھرمار ہے، اتنے بھاری ہتھیار رکھنے اور مورچے بنانے کا کوئی جواز نہیں۔‘
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے مطابق حکومت کی کوئی ایسی پالیسی نہیں کہ کسی بھی مسلح گروپ کو غیر قانونی بھاری ہتھیار رکھنے کی اجازت دے، صوبائی حکومت مذاکرات اور جرگوں کے ذریعے مسئلے کا پرامن حل نکالنے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔
’علاقے کے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے حکومت اپنی عملداری پر سمجھوتہ نہیں کرے گی، تیراہ اور جانی خیل میں آپریشن کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔‘
صوبائی کابینہ کے اراکین سمیت صوبائی چیف سیکریٹری، ایڈیشنل چیف سیکریٹریز اور انتظامی سیکریٹریز نے اجلاس میں شرکت کی۔