کوہ قراقرم کے سلسلے میں واقع ہنزہ حسن آباد میں شیشپر گلیشیئر کے سرکنے سے بننے والی جھیلوں سے سیلاب کا خطرہ کئی سالوں تک برقرار رہ سکتا ہے، ماہرین گلیشرز نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔
ماہرین نے شیشپر گلیشئر پر سیٹلائٹ کے ذریعے سے تحقیق کی، جدید تحقیق سے ماہرین نے ان آبادیوں میں موجود لوگوں کو مزید خطرات کی نشاندہی کردی۔
یہ بھی پڑھیں: کیا اس سال پھر شیشپر گلیشیئر پھٹنے سے قراقرم ہائی وے بند ہوسکتی ہے؟
حالیہ تحقیق میں سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ 2018 سے 2020 کے دوران ششپر گلیشیئر کے سرکنے سے ایک بڑی برفیلی جھیل بنی، جس نے وہاں کی بستیوں اور آبادکاروں کے لیے خطرات پیدا کیے ہیں۔
تحقیق کے مطابق 2018 سے 2022 کے درمیان جھیل 6 مرتبہ بھرنے اور خالی ہونے کے مراحل سے گزری۔ جھیل عام طور پر سال کے آخر میں بھرنا شروع ہوتی ہے، مئی میں اپنے عروج پر پہنچتی ہے اور مئی سے جولائی کے درمیان تیزی سے خالی ہو جاتی ہے، جو عموماً ایک سے دو دن کے اندر مکمل خالی ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق سب سے بڑی جھیل کا حجم 33.7 ملین مکعب میٹر تک پہنچا، جو 13 ہزار سے زائد اولمپک سائز کے سوئمنگ پولز کے برابر تھا۔ اس جھیل کے اچانک خالی ہونے کے باعث مئی 2022 میں حسن آباد میں ایک خطرناک گلاف کی شکل میں ریلہ آیا جس نے پل سمیت کئی گھروں کو نقصان پہنچایا۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان: گلیشیئر پگھلنے سے سیلاب کا خطرہ، محکمہ موسمیات نے الرٹ جاری کردیا
ماہرین کا کہنا ہے کہ گلیشیئر کے سرکنے سے بننے والی یہ جھیلیں مستقبل میں بھی خطرہ بن سکتی ہیں، لہٰذا ان کی مسلسل نگرانی ضروری ہے تاکہ سیلاب جیسے خطرات سے بروقت خبردار کیا جاسکے۔
پاکستان، قطبی علاقوں کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ گلیشیئرز کا گھر ہے۔ حالیہ تحقیق میں گلیشیئرز کے سرکنے اور ان سے بننے والی جھیلوں کی مسلسل نگرانی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے تاکہ ممکنہ نقصانات کو کم کیا جاسکے۔
’یہ پیشگوئی کرنا مشکل ہے کہ گلیشیئر کب سرکیں گے‘
یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے سینیئر لیکچرار ماہر گلیشیات ڈاکٹر ہیرولڈ لوول نے کہا، ’یہ پیشگوئی کرنا مشکل ہے کہ گلیشیئر کب سرکیں گے اور آیا وہ خطرناک جھیلیں بنائیں گے یا نہیں، لیکن کچھ مقامات پر یہ زیادہ ممکن ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ سیٹلائٹ ڈیٹا کی مدد سے ہم گلیشیئرز کی حرکت کو ٹریک کرسکتے ہیں اور ان جگہوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں جہاں مستقبل میں جھیلیں بننے کا امکان ہو۔ یہ معلومات ان آبادیوں کو خبردار کرنے میں اہم ہیں جو بڑھتے ہوئے سیلابی خطرات کا سامنا کرسکتی ہیں۔
تحقیق کے مطابق گلیشیئر کے سرکنے سے بننے والی بڑی جھیلیں کئی سالوں تک خطرہ بنی رہ سکتی ہیں، حتیٰ کہ جب گلیشیئر کی حرکت رک جائے۔
یہ بھی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی: گلگت بلتستان میں گلیشیئرز کے پگھلاؤ سے سیلابی صورتحال، عوام بے یارومددگار
انٹرنیشنل سینٹر آف انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی) کے محقق ڈاکٹر شیر محمد نے کہا جب ششپر گلیشیئر کا سرکنا اور آگے بڑھنا 2020 میں رک گیا تھا، تب بھی جھیل 2 سال تک بنتی اور خالی ہوتی رہی، جس کے نتیجے میں شدید سیلاب آیا اور نقصان پہنچا۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ ڈیٹا کے مطابق شیشپر گلیشیئر کے سرکنے سے جھیل بننے کے مراحل اب ختم ہوچکے ہیں، جو خاص طور پر حسن آباد گاؤں کے رہائشیوں کے لیے ایک عارضی ریلیف ثابت ہوسکتا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس علاقے میں گلیشیئر سے جڑے خطرات کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، ان میں کمیونٹی پر مبنی ابتدائی وارننگ سسٹمز، سیلاب سے بچاؤ کے لیے حفاظتی بند (پتھر بھرے جال) کی تعمیر اور بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے جیسے اقدامات شامل ہیں تاکہ مستقبل میں ممکنہ نقصانات سے بچا جاسکے۔