خطیر فنڈز کے باوجود خیبر پختونخوا میں لاکھوں بچے تعلیم سے محروم کیوں؟

بدھ 21 مئی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گلشاد بی بی خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ 8 سال کی عمر میں داخلہ مہم کے دوران انہیں اسکول میں داخل کیا گیا اور اب وہ باقاعدگی سے اسکول جاتی ہیں، لیکن ان کے صوبے خیبر پختونخوا میں ان کی عمر کے 49 لاکھ بچے اب بھی اسکول نہیں جاتے اور تعلیم سے محروم ہیں، جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا: تعلیم کے میدان میں پی ٹی آئی کی کارکردگی، طلبہ و اساتذہ کیا کہتے ہیں؟

17 سالہ گلشاد کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے ایک دور افتادہ گاؤں سے ہے اور سال 2014 میں خصوصی داخلہ مہم کے دوران ان کا اسکول میں داخلہ ہوا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی عمر 8 سال تھی اور ان کے والدین نے ان کا داخلہ نہیں کرایا۔ ’میرے ابو مزدوری کرتے ہیں اور ہم مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے تھے جبکہ غربت کے باعث میں اسکول سے محروم رہی‘۔

گلشاد بتاتی ہیں کہ 2014 میں بچوں کی تعلیم پر زور دیا گیا اور گاؤں میں بات پھیل گئی کہ حکومت بچوں کو اسکول داخل کرانے پر پیسے بھی دے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران اسکول کی ایک ٹیم ان کے گھر آئی اور مجھے اسکول داخل کرانے کا بتایا۔ انہوں نے بتایا کہ میرے ابو کو بتایا گیا کہ اسکول کا یونیفارم، کتابیں سب حکومت دے گی۔ بس آپ اسے اسکول سے مت روکیں۔ گلشاد نے بتایا کہ ان کے گاؤں میں لڑکے اسکول جاتے تھے اور لڑکیاں گھر کا کام اور مویشیوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ گلشاد بتاتی ہیں کہ اسکول والوں نے بڑی مشکل سے ابو کو منا لیا اور اس طرح وہ اسکول جانے لگیں۔

اسکولوں سے باہر بچے حکومت کے لیے بڑا چیلنج

خیبر پختونخوا میں سال 2013 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی پہلی حکومت آئی تو تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اسکولوں کی کمی، سہولیات کی فراہمی اور داخلے کی شرح کو بڑھانے کے لیے صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور محکمہ تعلیم کے لیے خطیر فنڈز مختص کیے گئے۔ محکمہ تعلیم نے ’گھر آیا استاد‘ اور دیگر ناموں سے خصوصی داخلہ مہم شروع کیں تاکہ اسکول جانے کی عمر کے تعلیم سے محروم بچوں کو اسکولوں میں لایا جا سکے۔

محکمہ تعلیم نے اس وقت 2 سالوں میں لاکھوں بچوں کو اسکولوں میں لانے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن ان تمام دعوؤں، تعلیمی ایمرجنسی اور خطیر فنڈز خرچ کرنے کے باوجود تعلیم سے محروم لاکھوں بچے حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہیں ۔

49 لاکھ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے

ڈیجیٹل مردم شماری 2023، جس کے نتائج اب جاری کیے گئے، اس کے مطابق صوبے میں مجموعی طور پر 37.49 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں 5 سے 16 سال کے درمیان اسکول جانے کی عمر کے 49 لاکھ 24 ہزار 121 بچے اسکول سے باہر ہیں جن میں بڑی تعداد یعنی 29 لاکھ 24 ہزار 279 لڑکیاں شامل ہیں۔

کوہستان میں سب سے زیادہ بچے تعلیم سے محروم

مردم شماری رپورٹ کے مطابق کوہستان کے تینوں اضلاع، کولائی پالس، لوئر اور اپر کوہستان میں اسکول سے باہر بچوں کی شرح خطرناک حد تک بلند ہے۔ کولائی پالس کوہستان میں 83.29 فیصد، لوئر کوہستان میں 79.37 فیصد، جبکہ اپر کوہستان میں 79.36 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ پالس میں 80 ہزار، لوئر کوہستان میں 48 ہزار، جبکہ اپر کوہستان میں 58 ہزار سے زائد بچیاں اسکول سے باہر ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اوسطاً 46.23 فیصد لڑکیاں اسکول سے باہر ہیں جبکہ لڑکوں میں یہ شرح 29.37 فیصد ہے۔ جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان اور باجوڑ جیسے اضلاع میں بھی صورتحال تشویشناک ہے۔ باجوڑ میں 63.31 فیصد، جنوبی وزیرستان میں 71.73 فیصد اور شمالی وزیرستان میں 66.93 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ شمالی وزیرستان میں 93 ہزار، جبکہ جنوبی میں ایک لاکھ 5 ہزار سے زائد بچیاں اسکول سے باہر ہیں۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا حکومت کا صوبے میں ’تعلیم کارڈ‘ کے اجرا کا فیصلہ

پشاور، سوات، نوشہرہ، مانسہرہ اور ایبٹ آباد جیسے ترقی یافتہ اضلاع میں تعلیم کی صورتحال نسبتاً بہتر ہے۔ ایبٹ آباد میں صرف 11.86 فیصد، ہری پور میں 15.68 فیصد، نوشہرہ میں 26.36 فیصد اور سوات میں 32.03 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ سب سے بہتر تعلیمی شرح اپر چترال میں دیکھی گئی ہے، جہاں صرف 6.16 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ کے آبائی ضلع ڈی آئی خان کی صورتحال

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے آبائی ضلع ڈی آئی خان میں بھی تعلیم کی شرح انتہائی ابتر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ڈی آئی خان میں 5 سے 16 سال کی عمر کے 2 لاکھ 60 ہزار سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں ایک لاکھ 44 ہزار سے زائد بچیاں شامل ہیں۔

حکومت تعلیم سے محروم بچوں کو اسکول لانے کے لیے کیا کر رہی ہے؟

خیبر پختونخوا حکومت کے مطابق تعلیم پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے اور اسکولوں میں لڑکیوں کی تعداد بڑھانے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے گئے ہیں جبکہ اسکول سے باہر بچوں کو اسکولوں میں لانے کے حوالے سے وزیر اعلیٰ کی زیر صدارت ایک خصوصی اجلاس بھی گزشتہ ہفتے ہوا، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ جن اضلاع میں اسکول سے باہر بچوں کی شرح 50 فیصد یا اس سے زیادہ ہے اور ان اضلاع میں تعلیمی ایمرجنسی لگائی جائے گی جس کے تحت ان اضلاع میں ہنگامی بنیادوں پر تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے لیے مختلف ماڈلز اور آپشنز پر کام کرنے کی ہدایت کی گئی۔

اجلاس میں علی امین کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں بچیوں کا اسکول سے باہر ہونا ایک لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے اسکولوں میں سہولیات کی فراہمی، اپ گریڈیشن، وظیفے اور ٹرانسپورٹ کی سہولت دینے کی ہدایت کی ہے۔

مفت ٹرانسپورٹ کی فراہمی

خیبر پختونخوا حکومت نے کوہستان سمیت دیگر دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں بچیوں کے لیے بسیں دینے کی منظوری دی ہے۔ صوبائی حکومت کے مطابق بین الاقوامی ادارے کی جانب سے خواتین کے لیے پنک بسیں دی گئی تھیں جو کامیاب نہیں ہوئیں اور اب حکومت نے ان بسوں کو اسکول کی بچیوں کو دینے کی منظوری دی ہے، جس سے بچیوں کو اسکول جانے میں آسانی ہوگی اور داخلے پر مثبت اثر پڑے گا۔

آؤٹ آف اسکول بچوں کو اسکول میں لانے میں رکاوٹیں کیا ہیں؟

محکمہ تعلیم کے ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ 2013 سے آؤٹ آف اسکول بچوں کو داخلہ دلوانے پر کام ہورہا ہے لیکن یہ بدستور ایک بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قبائلی علاقوں میں سب سے بڑی وجہ اسکولوں کی کمی اور سیکیورٹی کی ابتر صورتحال ہے، جبکہ بعض علاقوں میں اب بھی والدین بچیوں کو اسکول داخل کرانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ’بنیادی وجہ یا رکاوٹ جو بھی آپ کہہ لیں، وہ ہے غربت اور غربت کی وجہ سے یہ بچے اور بچیاں تعلیم سے محروم ہیں’۔

مزید پڑھیں: عمران خان کے ویژن کے مطابق پسماندہ طبقوں اور علاقوں کو آگے لانے پر کام کررہے ہیں، علی امین گنڈاپور

انہوں نے کہا کہ والدین بچوں سے محنت مزدوری کرواتے ہیں جبکہ بچیوں سے گھر کے کام کاج اور مال مویشیوں کی دیکھ بھال تاکہ 2 وقت کی روٹی پوری ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ کوہستان میں سخت پردہ کلچر ہے، وہاں والدین کو منانا بہت زیادہ مشکل ہے اور وہاں لڑکیوں کی تعلیم کو روایت کے خلاف قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپر چترال میں آغا خان فاؤنڈیشن اسکولز نے اہم کردار ادا کیا اور اسی لیے وہاں بچیوں کی آؤٹ آف اسکول شرح سب سے کم ہے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ دور افتادہ علاقوں میں اسکولز کی کمی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔

’اسکولز اور سہولیات کی کمی بڑی وجہ‘

کاشان اعوان پشاور میں ایجوکیشن رپورٹر ہیں، ان کے مطابق آؤٹ آف اسکول بچوں کا مسئلہ جلد ختم ہونے والا نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اجلاسوں سے نکل کر سنجیدہ اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

کاشان کے مطابق غربت، سہولیات اور اسکولوں کی کمی ان بچوں کی تعلیم میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کے مطابق حکومت دعوے تو بلند کرتی ہے تاہم عملی طور پر کام کم ہے۔ کاشان اعوان نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں 35 ہزار کے قریب سرکاری اسکول ہیں اور آؤٹ آف اسکول بچوں کی تعداد 49 لاکھ سے زائد ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں اسکولوں کی شدید کمی ہے اور دیہاتی علاقوں میں ہر کوئی پرائیویٹ اسکولوں کی فیس برداشت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو نئے اسکولوں کی تعداد بڑھانے، وظیفے اور ٹرانسپورٹ کی فراہمی کے ساتھ والدین کو سختی سے پابند کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ بچوں کو ہر صورت اسکول میں داخل کرائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp