عام آدمی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اقتدار کی باگ کس کے ہاتھ میں ہے اور سیاست کس کروٹ بیٹھتی ہے- اسے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے- اسے بجلی، گیس اور بڑے شہروں میں پانی کے بلز ادا کرنا ہیں- اسے سردی میں اونی کپڑے اور بخار میں دوا کی ضرورت ہے- اور حالت یہ ہے کہ دمِ تحریر یہ سب کچھ بہت مہنگا اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتا جا رہا ہے –
اس سب کی ذمہ داری عام آدمی نے حکومت کے کاندھوں پر ڈال رکھی ہے اور خود کچھ کرنا تو کجا، کچھ سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا- غور کریں تو اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ہم بہت سے معاملات میں فضول خرچ اور کسی حد تک عیاش اور لاپروا ہو چکے ہیں- یہ خرابی ہماری زندگیوں میں انفرادی و اجتماعی، دونو لحاظ سے موجود ہے-
ہمارا معاشرہ سادہ گھر بنانے یا سادہ زندگی گزارنے تک سے ایک قسم کی نفرت کرتا ہے- ہم گھر بنائیں تو پورا گھر بند کر دیتے ہیں کہ کہیں سے دھوپ اور ہوا بھی پوری طرح داخل نہ ہو سکے- پھر تازہ ہوا نہیں ملتی تو گرمی اور حبس سے بچنے کے لیے ایئر کنڈیشنر لگواتے ہیں- سردیوں میں ان بند گھروں میں دھوپ نہیں آتی تو بجلی اور گیس کے ہیٹرز خریدے جاتے ہیں- چوں کہ ہمارے گھر بند ہوتے ہیں تو روشنی کے لیے پورا سال ہی بلب اور ٹیوب لائٹس آن رکھنا پڑتی ہیں-
سوچیے کہ اگر ہم گھر ہی ہوا دار اور روشن بنا دیں تو کتنے اخراجات سے ہماری جان چھوٹ جائے گی- بند گھروں کی وجہ سے بلب، پنکھے، ایئر کولرز، ایئر کنڈیشنرز، ہیٹرز وغیرہ کی قیمتیں مسلسل آسمان کی طرف اڑتی جا رہی ہیں- پھر ان چیزوں کے استعمال پر بجلی اور گیس کا استعمال بڑھتا ہے، اور نتیجتاً ان کے بل بھی بڑھتے جا رہے ہیں-
ملک گیس اور بجلی کی مسلسل کمی کا شکار ہے- اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ملکی وسائل کا ایک بہت بڑا حصہ صرف کرنا پڑتا ہے- پھر ٹیکس بڑھتے ہیں- بجلی اور گیس کی قیمتیں پہلے ہمارے زیادہ استعمال کی وجہ سے بڑھتی ہیں، وہی قیمتیں وسائل کے بے دریغ ضیاع کی وجہ سے مزید بڑھتی جاتی ہیں-
اب یہ بتائیے کہ کون سی ایسی حکومت ہے جو ہمارے ان سارے اللے تللوں سمیت ہمیں ہر چیز سستی مہیا کر سکے- کیا ہم روشن اور ہوا دار گھر نہیں بنا سکتے؟ ایسے گھروں میں ہر وقت برقی قمقمے جلائے رکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہو گی- گرمیوں میں ایئر کنڈیشنر اور سردیوں میں دن رات ہیٹر چلانا بھی لازمی نہیں ہو گا-
گرمیوں میں تازہ ہوا، اور سردیوں میں دھوپ میں بیٹھنا نصیب ہو گا- بجلی اور گیس کی کھپت کم ہو گی تو ہمارا بل بھی کم آئے گا- اگر پورا معاشرہ اسی طرح کرے تو قومی سطح پر بجلی اور گیس کی کھپت میں کمی آئے گی،اور ٹیکس بھی کم ہوں گے- بجلی کے بل مزید کم ہو سکیں گے- ہر شخص بن سوچے سمجھے، عیاشی کی زندگی ضرور گزارے لیکن حکومت مہنگائی نہ ہونے دے-
پھر اگر حکومت یہ کہے کہ دکانیں دن کے آغاز میں کھولیں اور رات کے آغاز میں بند کر دیں تو تاجر مافیا آسمان سر پہ اٹھا لیتا ہے- منافع پرستو! اگر تم لوگ راتوں کو دکانیں بند رکھو گے تو لوگوں کی عادت خود بخود درست ہو جائے گی- لیکن خود کو درست کرنا بھی پسند نہیں۔
ہماری خوراک دیکھ لیجیے،برائلر اور کولڈ ڈرنکس ہماری زندگیوں کا جزو لاینفک بن چکے ہیں- آخر کیوں؟ ہمارے ملک میں ہمہ قسم تقریبات میں اندھا دھند برائلر کا گوشت پکایا، کھایا اور ضائع کیا جاتا ہے- پھر قیمتیں کیوں نہ بڑھیں؟ گھروں میں مرغیاں اور بکریاں پالنا ہمارے معاشرے کی صدیوں پرانی روایت ہے-
ایک ڈیڑھ عشرے قبل تک دیہات میں تو سو فی صد گھروں میں یہ دو چیزیں بکثرت ہوتی تھیں- شہروں میں بھی تقریباً ہر دوسرے گھر میں چار پانچ مرغیاں اور ایک یا دو بکریاں ضرور ہوتی تھیں- اس وجہ سے دودھ، انڈوں اور مرغی کے گوشت کی بہت سی ضروریات گھروں میں ہی پوری ہو جایا کرتی تھیں- لیکن اب کتے، بلیاں اور طوطے پالنا تو فیشن بن چکا، لیکن مرغیاں اور بکریاں پالنا لوگوں کو پسند نہیں-
پانچ پانچ مرلے پر بنے چار چار منزلہ نجی ہسپتال اب ہمارے ہر بڑے شہر میں عام ہیں- پھر ہماری خوراک کی قبیح عادات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ، “انسانیت کی خدمت” کے بہت سے جھوٹے دعوے دار “انسانیت کے بدترین دشمن” بنے نظر آتے ہیں- بیمار ہونا ایک تکلیف تو ہے ہی ، اوپر سے نجی ہسپتالوں کے عملے اور اکثر ڈاکٹرز کے رویئے اور قارون بننے کی ہوس ایسی کہ جیب سے اندھا دھند پیسے، اور دل سے لگاتار بدعائیں نکلتی ہیں- آپ نے دیکھا کہ آپ کی بدعائیں انسانیت کے دشمنوں کو نہیں لگتیں تو فکر مت کیجیے ، آخرت میں سارے حساب بے باق ہو جائیں گے۔
ہماری سفری عادات بھی اب خراب ہو چکی ہیں- سکول کے زمانے میں، چھٹی سے دسویں جماعت تک میں اپنے گھر سے تقریباً دو کلومیٹر دور سکول تک گرمیوں اور سردیوں میں بھی پیدل جاتا اور آتا تھا- یہ ایک خوب صورت ورزش بھی تھی- میٹرک کے بعد اپنے گھر سے تقریباً 8 کلومیٹر دور کالج تک ہر موسم میں بائیسکل پر جانا معمول تھا-
پنجاب یونیورسٹی کے ایام میں، میرے اکثر ہم جماعت یونیورسٹی کی بسز میں سفر کرتے، جب کہ بعض موٹر سائیکلز پر آتے جاتے تھے – چند ایک کے پاس کاریں بھی تھیں – لیکن میں تب بھی سمن آباد (لاہور) کے پہلے گول چکر سے پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس تک سائیکل پہ آتا جاتا تھا- حال آں کہ موڑ سمن آباد سے یونیورسٹی کی بس مل جاتی تھی –
لیکن مجھے اپنی بائیسکل کی سواری عزیز تھی- لیکن اب ہماری زندگیوں میں کیسا منفی انقلاب آ چکا ہے کہ پیدل چلنے یا بائیسکل پر سفر کرنے کو لوگ پسند نہیں کرتے- ماحول ہی ایسا بن گیا ہے- بچے دوسری گلی کی نکڑ پر بنی سبزی کی دکان تک پیدل چلنا دشوار گردانتے ہیں- ما شاء اللّہ ، میرا بیٹا محمد بن اسد شاہ او لیول کے آخری سال کا طالب علم ہے اور کالج کی بس میں ہی جاتا اتا ہے –
جب کبھی وہ کار کی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو سوچتا ہوں کہ میں اپنے بچوں کو رہائش، خوراک اور سفر کی سادہ عادات منتقل کرنے میں ناکام ہوں – اگر ہم سادہ اور صحت بخش طرزِ زندگی اپنا نہیں سکتے، تو کسی شکوے، احتجاج اور شکایت کا بھی ہمیں کوئی حق حاصل نہیں۔