اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے عدالتی معاملات میں ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے خط پر حکومت نے چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت ان الزامات کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔
مزید پڑھیں
وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کے بعد پی ٹی وی کے میڈیا سینٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ جج پر مشتمل انکوائری کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر قانون کے مطابق کابینہ سے منظوری کے بعد مجوزہ کمیشن کے ٹی او آرز مرتب کیے جائیں گے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اجلاس میں کچھ ایسے واقعات کا ذکر بھی ہوا جو سابق چیف جسٹس کے دور سے متعلق تھے، اس کے علاوہ معیشت سمیت دیگر ملکی مسائل پر بھی گفتگو ہوئی، وزیراعظم نے چیف جسٹس صاحب سے کہا کہ ٹیکس معاملات کے جلد فیصلے کیے جائیں، جس پر چیف جسٹس نے ٹیکس معاملات کے لیے بھی بینچز بھی بنانے کی یقین دہانی کرائی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے صاف صاف کہا کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ اور ان کی جماعت تو عدلیہ کے زیر اثر ہونے سے خود متاثر رہ چکے ہیں۔
’کل وزیراعظم کابینہ کے سامنے معاملہ رکھیں گے‘
وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف خط کا معاملہ کل کابینہ کے سامنے رکھیں گے، وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف عدلیہ بلکہ مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات میں کسی کی مداخلت نہیں ہونی چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ ملاقات میں وزیراعظم نے چیف جسٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کا وعدہ کیا اور کہا کہ کمیشن یک رکنی ہونا چاہیئے، آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے لئے ججز کا تقرر بھی نیک نیتی سے کیا تھا لیکن اس کو اچھا نہیں سمجھا گیا۔
’کمیشن بنانا وفاقی کابینہ کا اختیار ہے‘
وفاقی وزیر نے کہا کہ کمیشن بنانا وفاقی کابینہ کا اختیار ہے، چیف جسٹس نے بھی انکوائری کمیشن پر رضا مندی ظاہر کی ہے، ججز کا خط لکھا جانا مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ عدلیہ پر چھوڑتے ہیں، یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جب یہ واقعات ہوئے اگر اسی وقت ان پر ایکشن لیا جاتا تو مجھے خوشی ہوتی، کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ آج سے 13 ماہ پہلے یہ شکایات پر کارروائی ہو چکی ہوتی۔
’کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر لائی جائے گی‘
اعظم تارڑ نے کہا کہ اس کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے گا، ہر وقت افواج پاکستان پر تنقید نہیں کرنی چاہیئے، جب جب ادارے اپنے دائرہ کار سے نکل کر کام کرتے ہیں خرابی پیدا ہوتی ہے، یہاں چیف جسٹس صاحبان نے بے شمار سوموٹو نوٹس لیے لیکن جو سیاستدان ان کے زیر عتاب رہے وہ اب پھر سامنے ہیں اور جج صاحبان غائب ہو چکے ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کمیشن قانون کے مطابق 60 دن میں رپورٹ جمع کرانے کا پابند ہے۔