آج کی دنیا میں کسی ملک کی دفاعی خودمختاری کا اصل پیمانہ یہ ہے کہ وہ اپنے میزائل خود تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔ مگر دولتِ مشترکہ کے بیشتر ممالک بشمول برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ کے لیے یہ کہانی خود انحصاری سے زیادہ امریکا پر انحصار کی عکاس ہے۔
استعماری ورثہ، سرد جنگ کے اتحاد، اور امریکی دفاعی نظام کے ساتھ دہائیوں پر محیط انضمام نے ان ممالک کی اسٹریٹجک سوچ کو گہرے اثرات دیے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دولتِ مشترکہ میں ایک متنوع مگر منسلک نیٹ ورک وجود میں آیا، کچھ ممالک میزائل بناتے ہیں، کچھ اسمبل کرتے ہیں، اور کچھ محض خریدتے ہیں۔
مزید پڑھیں: شمالی کوریا کا جدید ہائپرسونک میزائل کا کامیاب تجربہ، کم جونگ اُن کی عدم موجودگی میں لانچ
برطانیہ: سمندروں کی بادشاہت سے امریکی ٹیکنالوجی کی مرہونِ منت قوت تک
برطانیہ دولتِ مشترکہ میں واحد ایٹمی طاقت ہے۔ 1952 میں پہلا ایٹمی تجربہ کرنے کے بعد سے اس نے اپنی نیوکلیئر حیثیت برقرار رکھی، مگر آج اس کی جوہری صلاحیت کا دار و مدار امریکی ساختہ میزائلوں پر ہے۔

ٹرائیڈنٹ II سب میرین لانچڈ بیلسٹک میزائل (Trident II SLBM) — برطانیہ کے پورے نیوکلیئر ڈیٹرنس کا مرکز، امریکی ساختہ ہیں اور ان کی دیکھ بھال بھی واشنگٹن کے ساتھ مشترکہ طور پر کی جاتی ہے۔ البتہ وارہیڈز برطانوی تیار کردہ ہیں، جو اس مشترکہ خودمختاری کی عجیب تصویر پیش کرتے ہیں۔
برطانیہ کے پاس قوت ہے، مگر وہ اپنے سب سے خفیہ دفاعی نظام میں بھی مکمل خودمختار نہیں۔ بحریہ کے پاس ٹاماہاک اور ہاروپن میزائل ہیں، جبکہ فضائیہ اسٹورم شیڈو کروز میزائل (فرانس کے ساتھ مشترکہ منصوبہ) چلاتی ہے۔ نیا فرانسیسی۔برطانوی منصوبہ FC/ASW ان بوڑھے میزائلوں کی جگہ لے گا۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو ٹام ہاک میزائل فراہم کرنے سے انکار کردیا
آسٹریلیا: بحرالکاہل کی ابھرتی ہوئی میزائل طاقت
آسٹریلیا کی جغرافیائی تنہائی اس کی طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ اسی لیے وہ تیزی سے اپنی دفاعی صلاحیت جدید کر رہا ہے، خاص طور پر AUKUS اتحاد (امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا) کے تحت۔

اس وقت آسٹریلیا کے پاس اپنی میزائل صنعت نہیں، مگر امریکی شراکت سے وہ اس خلا کو پُر کرنے میں مصروف ہے۔ اس کی بحریہ ہاروپن اور ناروے کے نیول اسٹرائیک میزائل (NSM) استعمال کرتی ہے، جن کی رینج 300 کلومیٹر تک ہے۔
آنے والے برسوں میں آسٹریلیا کو ٹاماہاک کروز میزائل اور ہائپرسونک ہتھیار ملنے والے ہیں۔ یہ پیشرفت آسٹریلیا کو ایک دور مار دفاعی قوت میں بدل دے گی جو بحرالکاہل میں طاقت کا نیا توازن قائم کر سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: شمالی کوریا کی فوجی پریڈ، نئے طاقتور ترین بین البراعظمی میزائل کی نمائش
آسٹریلیا اب دفاع سے آگے بڑھ کر ڈیٹرنس (Deterrence) کی زبان بولنا سیکھ رہا ہے اور یہ زبان میزائلوں میں لکھی جا رہی ہے۔
کینیڈا: خاموش مگر قابلِ اعتماد شراکت دار
کینیڈا کی دفاعی پالیسی ہمیشہ تعاون پر مبنی رہی ہے، نہ کہ محاذ آرائی پر اسی لیے اس کی میزائل حکمتِ عملی بھی اجتماعی دفاع پر مرکوز ہے۔ کینیڈا کی سب سے بڑی طاقت NORAD اتحاد ہے، جو امریکا کے ساتھ مشترکہ فضائی و میزائل دفاعی نظام ہے۔

کینیڈا کے پاس خود ساختہ کروز یا بیلسٹک میزائل نہیں، بلکہ وہ امریکی میزائل استعمال کرتا ہے جیسے ہاروپن۔ صنعتی لحاظ سے، کینیڈا مکمل میزائل نہیں بناتا بلکہ نیٹو اور امریکی منصوبوں کے لیے پرزہ جات، سینسرز اور سافٹ ویئر فراہم کرتا ہے۔
کینیڈا کا اصول سادہ ہے کہ سلامتی انضمام کے ذریعے، خود انحصاری کے ذریعے نہیں۔
مزید پڑھیں: اسرائیلی فضائیہ کا یمن سے داغا گیا میزائل مار گرانے کا دعویٰ
نیوزی لینڈ: پرامن ملک، مگر خلائی طاقت
نیوزی لینڈ کے پاس کوئی جارحانہ میزائل نظام نہیں مگر اس کے پاس راکٹ لانچ صلاحیت ہے۔ 2018 میں راکٹ لیب LC-1 اسپیس پورٹ سے ملکی ساختہ راکٹ کے ذریعے سیٹلائٹس خلا میں بھیجے گئے۔

یہ مظاہرہ ظاہر کرتا ہے کہ نیوزی لینڈ بین البراعظمی راکٹ ٹیکنالوجی کی بنیادی اہلیت رکھتا ہے، مگر اس نے اسے عسکری نہیں بلکہ سائنسی و تجارتی مقصد کے لیے استعمال کیا۔ نیوزی لینڈ کے لیے خلا تحقیق کا میدان ہے، ہتھیاروں کا نہیں۔
دولتِ مشترکہ کی مجموعی تصویر
دولتِ مشترکہ کے میزائل پروگراموں سے ایک واضح حقیقت سامنے آتی ہے۔ یہ ممالک تاریخی ورثے میں خودمختار ضرور ہیں، مگر عملی طور پر امریکی نظام کا حصہ بن چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاک فوج نے ملکی سطح پر تیار کردہ فتح 4 کروز میزائل کا کامیاب تربیتی تجربہ کرلیا
برطانیہ کے پاس ایٹمی طاقت ہے مگر امریکی ٹیکنالوجی پر انحصار بھی۔ آسٹریلیا اتحاد کے سہارے نئی میزائل قوت بن رہا ہے۔ کینیڈا اجتماعی دفاع پر یقین رکھتا ہے۔ نیوزی لینڈ سائنس کو سلامتی پر فوقیت دیتا ہے۔

آج جب میزائل ٹیکنالوجی طاقت کی علامت بن چکی ہے، دولتِ مشترکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر ترقی یافتہ ملک خود مختاری کا خواہاں نہیں، کچھ اب بھی اپنے اتحادیوں کے اعتماد پر زندہ ہیں۔
بشکریہ: رشیا ٹوڈے، تحریر: دمتری کورنیف (عسکری ماہر اور ملٹری رشیا منصوبے کے بانی)














