7 سال کی عمر میں شام کے تاریخی مگر محصور شہر حلب سے کیے گئے اپنے ٹوئٹس کے ذریعے عالمی توجہ حاصل کرنیوالی 16 سالہ لڑکی کو جنگ سے متاثرہ بچوں کی وکالت پر کِڈز رائٹس پرائز سے نوازا گیا۔
2016 میں اپنے خاندان کے ساتھ ترکی منتقل کیے جانیوالی بانا العبد کو انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز ان کی ان کوششوں کے اعتراف میں دیا گیا، جن میں خاندانوں کا دوبارہ ملاپ، اسکولوں کا دوبارہ کھلنا، اور غزہ، سوڈان، یوکرین اور شام جیسے جنگ زدہ علاقوں کے بچوں کے لیے امید فراہم کرنا شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 12 سال بعد لندن میں شامی سفارتخانہ دوبارہ کھل گیا، نیا قومی پرچم سربلند
بانا العبد نے دنیا بھر میں مختلف کانفرنسوں میں بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی، ترکی اور اردن کے پناہ گزین کیمپوں میں بچوں سے ملاقاتیں کیں، 2 کتابیں لکھیں، اور فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون سمیت عالمی رہنماؤں کی جانب سے پذیرائی حاصل کی۔
الناشطة السورية بانا العبد تفوز بجائزة السلام الدولية للأطفال#قناة_الحدث pic.twitter.com/Vvil2LoEG5
— ا لـحـدث (@AlHadath) November 20, 2025
اس نے اسٹاک ہوم سٹی ہال میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ سابق شامی صدر بشار الاسد، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن، سوڈانی جنگی سرداروں اور دنیا بھر کے تمام جنگی رہنماؤں سے یہ سوال کرتی ہیں کہ کتنے بچوں کی زندگیوں اور خوابوں کو جنگوں نے، شہریوں کو مارنے والے جابرانہ نظاموں نے، جنگ کو سیاسی ایجنڈا بنانے والوں نے، اور سلامتی کے نام پر جارحیت کو جائز قرار دینے والوں نے چھین لیا ہے۔
مزید پڑھیں:شامی صدر احمد الشرع عالمی سطح پر نمایاں، ملک میں چیلنجز کا سامنا
انہوں نے مزید کہا کہ وہ لوگ جان لیں کہ ان کے اعمال کا حساب ضرور ہوگا اور ہم ان کے سامنے خاموش نہیں رہیں گے جنہوں نے خون کو اقتدار کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق انعامی تقریب سے قبل بانا العبد نے کہا کہ جنگ زدہ علاقوں کے بچوں کے لیے تعلیم کی فراہمی ان کی اولین ترجیح ہے۔
Today, I stood on the stage of the International Children’s Peace Prize, but I wasn’t alone. I carried every child who lives in fear , every child whose home, school, or family was taken by war. I dedicate This award to the children of Syria, Gaza, Yemen, Ukraine, Sudan and every… pic.twitter.com/Y8Tw2foKSP
— Bana Alabed (@AlabedBana) November 20, 2025
انہوں نے کہا کہ بچوں کی مدد کے لیے بہت سے امور ہیں، مگر سب سے بنیادی ضرورت تعلیم ہے۔ جب بچوں کو تعلیم ملتی ہے تو انہیں امید، مواقع اور ترقی کا راستہ ملتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنگ میں بچے وقت سے پہلے بڑے ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اپنے حالات کو ان کی عمر سے زیادہ جلد سمجھنے لگتے ہیں۔
مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کے بعد امریکا نے بھی شامی صدر احمد الشرع پر پابندیاں ختم کر دیں
بانا العبد 2016 میں شام چھوڑنے کے بعد واپس نہیں گئیں، لیکن وہ اپنے ملک اور اس کے تعلیمی ڈھانچے کی بحالی میں کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شام میں اسکولوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔ بچے فرش پر بیٹھنے پر مجبور ہیں، سردی ہے، نہ وائٹ بورڈ ہیں، نہ کتابیں۔
مزید پڑھیں: شامی صدر احمد الشرع کا روس کا پہلا دورہ، بشارالاسد کی حوالگی کا مطالبہ متوقع
’نہ ہی ڈیسک ہیں، تعلیم کے لیے کوئی بنیادی سہولت موجود نہیں۔‘
وہ ان 5,000 شامی بچوں کی بازیابی کے لیے بھی کام کر رہی ہیں جو جنگ کے دوران زبردستی اپنے خاندانوں سے جدا کر دیے گئے تھے اور اب تک لاپتا ہیں۔
نیڈر لینڈز میں قائم کِڈز رائٹس فاؤنڈیشن کے بانی مارک ڈیولارٹ نے بانا العبد کے حوصلے، ثابت قدمی اور انصاف کے لیے اٹل جدوجہد کو سراہا۔
مزید پڑھیں: سابق القاعدہ کمانڈر سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات، ٹرمپ نے شامی صدر کو طاقتور رہنما قرار دیا
انہوں نے کہا کہ ناقابلِ تصور مشکلات کے باوجود انہوں نے اپنی کہانی کو ایک طاقتور وکالتی تحریک میں بدل دیا۔
واضح رہے کہ ماضی میں یہ ایوارڈ گریٹا تھنبرگ اور ملالہ یوسفزئی جیسی شخصیات کو بھی مل چکا ہے۔













