سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو توشہ خانہ کیس ہونے والی سزا کے خلاف ان کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے جو منگل کو صبح گیارہ بجے سنایا جائے گا۔
پیر کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے ساڑھے 3 گھنٹے طویل دلائل دیے جس کے دوران انہوں نے دوائی لینے کے لیے 15 منٹ وقفے کی درخواست بھی کی جو کہ منظور کر لی گئی تھی۔
اپنے دلائل کے دوران امجد پرویز نے گزشتہ سماعت کی طرح ریاست کو فریق نہ بنانے کا اعتراض اٹھایا اور ایک گھنٹے تک اسی نقطے پر گفتگو کی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کی چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف پرائیویٹ کمپلینٹ ہے۔ ٹرائل کورٹ میں کہیں ریاست کا ذکر نہیں آیا تو یہاں فریق بنانا کیوں ضروری ہے؟
امجد پرویز نے کہا کہ ضابطہ فوجداری میں سزا معطلی کی درخواست میں شکایت کنندہ کو فریق بنانے کا ذکر نہیں۔ انہوں نے استدعا ہے کہ عدالت درخواست میں ریاست کو نوٹس جاری کرے اور نوٹس کے اجرا اور ریاست کا موقف سنے بغیر سماعت آگے نہ بڑھائی جائے۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز کا انڈین عدالت کے متعلقہ فیصلے کا حوالہ دیتے کہا کہ راہول گاندھی کو ایک پرائیویٹ کمپلینٹ میں 2 سال کی سزا ہوئی۔ راہول گاندھی نے سزا معطلی کی درخواست دائر کی جو خارج کر دی گئی۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ سزا معطل کرنا کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ رول نہیں ہے۔ میں نے عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے پاکستانی اور غیرملکی عدالتوں کے حوالے پیش کیے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب کے کیسز میں بھی تو ریاست کو نوٹس جاری نہیں کیا جاتا۔ امجد پرویز نے کہا کہ نیب کے اپنے پراسیکیوٹرز طے شدہ ہیں اور عدالت انہیں ہی سنتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کیسز میں تو شکایت کنندہ کو بھی نوٹس جاری نہیں کیا جاتا۔
امجد پرویز نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی شکایت درست فورم پر دائر نہ ہونے کا اعتراض اٹھایا گیا۔ کرپٹ پریکٹیسز کے خلاف اِس قانون کے تحت تمام شکایات سیشن عدالت میں دائر ہوئیں۔ اگر مجسٹریٹ کی اسکروٹنی والی بات مان بھی لی جائے تو ٹرائل سیشن عدالت کو ہی کرنا ہے۔ میں ایک آئینی ادارے کے وکیل کے طور پر عدالت کے سامنے کھڑا ہوں۔ دوسرے فریق نے کہا کہ شکایت درست فورم پر دائر نہ ہونے کے باعث برقرار نہیں رہ سکتی۔ یہ بات درست نہیں ہے بلکہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہی کہ اگر یہ غلطی ہے تب بھی وہ ٹرائل کو خراب نہیں کرے گی؟ امجد پرویز نے جواب دیا کہ ہہ کوئی نیا قانون نہیں بلکہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ کوئی ایک ایسا فیصلہ موجود نہیں جہاں کرپٹ پریکٹیسز کی شکایت مجسٹریٹ کے پاس دائر ہوئی ہو۔ یہ عدالتی دائرہ اختیار کا معاملہ ہی نہیں ہے۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ کمپلینٹ مجسٹریٹ سے ہوکر سیشن عدالت نہیں آئی۔ دائرہ اختیار تو سیشن کورٹ کا ہی ہے۔ ایک ججمینٹ یہ پیش کردیں جس میں مجسٹریٹ سے ہوکر کمپلینٹ عدالت آئی ہو۔
وکیل الیکشن کمیشن نے حق دفاع ختم کرنے سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دیا کچھ کیسز میں گواہوں کی فہرست پر اعتراض نہیں اٹھایا جاتا اور اگر اعتراض آ جائے تو پھر عدالت کو اس اعتراض پر پہلے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
ٹرائل کورٹ نے کہا کہ یہ انکم ٹیکس ریٹرنز کا کیس نہیں ہے۔ ٹرائل کورٹ نے فیصلہ دیا کہ جو گواہ دیے گئے ہیں وہ ٹیکس کنسلٹنٹ ہیں۔
وکیل امجد پرویز نے موقف اپنایا کہ اگر گواہ کیس میں التوا کے لیے پیش کیے جائیں تو عدالت کے پاس مسترد کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ ٹیکس کنسلٹنٹ اس کیس کے متعلقہ گواہ نہیں ہو سکتے۔
عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا بعدازاں عدالتی عملے نے بتایا کہ فیصلہ منگل کو 11 بجے سنایا جائے گا۔