پاکستان کا سب سے بڑا ادبی اعزاز ’کمال فن ایوارڈ‘ اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ممتاز اہل قلم کی زندگی بھر کی ادبی خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے کے 2021 کے ایوارڈ کے لیے معروف شاعر ظفراقبال کو منتخب کیا گیا ہے۔ ایوارڈ کا اعلان ڈاکٹر نجیبہ عارف صدر نشین، اکادمی ادبیات پاکستان نے ایوارڈ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کیا۔ ’کمالِ فن ایوارڈ‘ ملک کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ہے۔ جس کی انعامی رقم 10 لاکھ روپے ہے۔
2021کے ’کمال فن ایوارڈ‘ کا فیصلہ پاکستان کے معتبر اور مستند اہل دانش پر مشتمل منصفین کے پینل نے کیا، جس میں منیر احمد بادینی، پروفیسرڈاکٹرنذیرتبسم، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، محترمہ ثروت محی الدین، ڈاکٹر اباسین یوسفزئی، محترمہ مسرت کلانچوی، ڈاکٹر ادل سومرو، مبین مرزا، ڈاکٹر روبینہ شاہین، محمد قاسم نسیم، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر اور افضل مراد شامل تھے۔ اجلاس کی صدارت منیر احمد بادینی نے کی تھی۔
’کمال فن ایوارڈ ‘ ہر سال کسی بھی ایک پاکستانی اہل قلم کوان کی زندگی بھر کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ ملک کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ہے۔ جس کا اجراء اکادمی ادبیات پاکستان نے 1997ء میں کیا تھا۔ اب تک اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے احمد ندیم قاسمی، انتظارحسین، مشتاق احمد یوسفی، احمد فراز، شوکت صدیقی، منیرنیازی، ادا جعفری، سوبھوگیان چندانی ،ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، جمیل الدین عالی، محمد اجمل خان خٹک، عبداللہ جان جمالدینی، محمدلطف اللہ خان، بانو قدسیہ، محمد ابراہیم جویو، عبداللہ حسین، افضل احسن رندھاوا، فہمیدہ ریاض، کشورناہید، امرجلیل، ڈاکٹر جمیل جالبی، منیر احمد بادینی اور اسد محمد خاں کو ’کمال فن ایوارڈ‘ دیے جا چکے ہیں۔
ظفراقبال کی نجی و ادبی زندگی
پاکستان کے معروف شاعر اور کالم نگار ہیں، وہ معاصر جدید اردو غزل کے اہم ترین شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ ظفر اقبال 27 ستمبر، 1933ء کو بہاولنگر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ضلع اوکاڑہ کے معزز زمیندار تھے۔
ظفر اقبال نے ابتدائی تعلیم بہاولنگر سے حاصل کی اور میٹرک ایم سی ہائی اسکول اوکاڑہ سے 1950ء میں کیا۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان ایف سی کالج لاہور اور بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ ظفر اقبال نے ایل ایل بی کا امتحان لا کالج جامعہ پنجاب سے پاس کیا۔ وکالت کرنے کے بعد انہوں نے اوکاڑہ کچہری میں پریکٹس شروع کر دی تھی۔
وہ ایک بار اوکاڑہ بار ایسوسی ایشن اور 2 مرتبہ پریس کلب اوکاڑہ کے صدر بھی رہے۔ انہوں نے قومی سیاست میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔ 1977ء کے انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی کی طرف سے پاکستان پیپلز پارٹی کے راؤ خورشید علی خان کے مقابلے میں الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔
ادبی خدمات:
شاعری میں ان کے استاد نوراحمد انجم قریشی تھے۔ ظفراقبال آٹھویں جماعت تک کلیات میر اور دیوانِ غالب کا بھرپور مطالعہ کر چکے تھے۔ شفیق الرحمن کی تحریریں پڑھ کر لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ غزل میں فنی اور موضوعاتی سطح پر روایت شکنی کے حوالے سے الگ اور بھرپور پہچان بنائی۔ اُن کے پہلے شعری مجموعے ’آب رواں‘ کو بے حد پزیرائی ملی۔
اس کے بعد انہوں شعری تجربات کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے بام عروج تک پہنچایا۔ 1973ء میں انہوں نے پہلا کالم سرور سکھیرا کے پرچے دھنک کے لیے لکھا۔ ان کے مختلف اخبارات میں ’دال دلیا‘ کے نام شائع ہونے والے کالم بھی قارئین کا وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔ ظفر اقبال 16 فروری 1995ء سے یکم مارچ 1997ء تک اردو سائنس بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
ظفر اقبال کی تصانیف
خشت زعفران
ہرے ہنیرے
آبِ رواں
گل آفتاب
رطب و یابس
سرِ عام
نوادر
تفاوت
غبار آلود سمتوں کا سراغ
عیب وہنر
وہم وگمان
اطراف
تجاوز
تساہل
اب تک (کلیات غزل کے 3 حصے)
اعزازات
حکومت پاکستان نے ظفر اقبال کی خدمات کے اعتراف پر انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا ہے۔
’قومی ادبی ایوارڈز‘ 2021ء
اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے’قومی ادبی ایوارڈز‘ برائے سال 2021ء کا بھی اعلان کیا گیا۔ چیئرپرسن اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹر نجیبہ عارف نے پریس کانفرنس میں قومی ادبی ایوارڈز کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اردو نثرکے لیے سعادت حسن منٹو ایوارڈ عرفان جاوید کی کتاب ’عجائب خانہ‘، اردو نثر (تحقیقی وتنقیدی ادب) کے لیے بابائے اردو مولوی عبدالحق ایوارڈ توصیف تبسم کی کتاب ’یہی آخر کو ٹھہرا فن ہمارا‘ کو دیا گیا۔
اردو شاعری کے لیے ’ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ایوارڈ‘ افتخارعارف کی کتاب ’باغ گل سرخ‘، پنجابی شاعری کے لیے ’سید وارث شاہ ایوارڈ‘ ڈاکٹر ناصر بلوچ کی کتاب’ان میا بھار‘ اور شفقت حسین کی کتاب ’کون دائیاں دے جوڑ‘، پنجابی نثر کے لیے’افضل احسن رندھاوا ایوارڈ‘ زاہد حسن کی کتاب ’کہانی اک ماں دی‘، سندھی شاعری کے لیے’شاہ عبدالطیف بھٹائی ایوارڈ‘ خالدہ نسرین کی کتاب ’دیوان‘ کو دیا گیا۔
سندھی نثرکے لیے ’مرزا قلیچ بیگ ایوارڈ‘ زبیدہ بروانی کی کتاب ’آراڌني‘، پشتو شاعری کے لیے’خوشحال خان خٹک ایوارڈ‘ لائق زادہ لائق کی کتاب ’دوطن سندري‘، پشتو نثر کے لیے ’محمد اجمل خان خٹک ایوارڈ‘ ڈاکٹر وقارعلی شاہ کی کتاب ’عبدالغني خان ژوند اوزمانه‘، بلوچی شاعری کے لیے ’مست توکلی ایوارڈ‘ مسرورشاد کی کتاب ’چراگ لئیب ءانت‘ کو دیا گیا۔
بلوچی نثر کے لیے ’سید ظہور شاہ ہاشمی ایوارڈ‘ ڈاکٹر فضل خالق کی کتاب ’شیشلو‘، سرائیکی شاعری کے لیے ’خواجہ غلام فرید ایوارڈ‘ مالک اشتر کی کتاب’نظمیں دے مجسمے‘، سرائیکی نثر کے لیے ’ڈاکٹرمہر عبدالحق ایوارڈ‘ حفیظ خان کی کتاب’ہک رات دا سجھ‘، براہوئی شاعری کے لیے ’تاج محمد تاجل ایوارڈ‘ رحیم ناز کی کتاب ’دسمسارہ‘ کو دیا گیا۔
براہوئی نثر کے لیے ’غلام نبی راہی ایوارڈ‘ ذوق براہوئی کی کتاب ’براہوئی گری‘ ہندکو شاعری کے لیے’سائیں احمد علی ایوارڈ‘ امتیازالحق امتیاز کی کتاب ’ادھی دعا‘، ہندکو نثر کے لیے’خاطر غزنوی ایوارڈ‘ گل ارباب کی کتاب ’تتلی، تریل تے تریمت‘، انگریزی نثر کے لیے پطرس بخاری ایوارڈ ارشد وحید کی کتاب (Other Days)، انگریزی شاعری کے لیے’داؤد کمال ایوارڈ‘ سحرہاشمی کی کتاب(Othered) اور ترجمے کے لیے ’محمد حسن عسکری ایوارڈ‘ سعید نقوی کی کتاب ’اشتعال کی فصل‘ کو دیا گیا۔ قومی ادبی انعام حاصل کرنے والی ہر کتاب کے مصنف کو دو 2 لاکھ روپے بطور انعامی رقم دیے جائیں گے۔