ہر سال حادثات، پابندی کے باوجود حکومت پتنگ بازی روکنے میں ناکام کیوں؟

پیر 25 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پتنگ بازی پنجاب کا ایک قدیمی کھیل ہے جو کہ پاکستان اور بھارت دونوں میں کھیلا جاتا ہے، موسم بہار کی آمد کی خوشی میں پنجابی کئی دہائیوں سے پتنگ اڑایا کرتے تھے جبکہ گزشتہ کچھ عرصہ سے پتنگ بازی کے لیے ایک مخصوص تہوار بسنت بھی منایا جانے لگا ہے۔

پتنگ بازی سے پہلے تو جانی نقصان نہیں ہوتا تھا تاہم گزشتہ دو دہائیوں سے پتنگ بازی سے ہونے والی جانی نقصانات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے، ہر سال درجنوں افراد پتنگ بازی، چھت سے گرنے، کرنٹ لگنے یا موٹر سائیکل پر سفر کے دوران گلے میں ڈور پھرجانے کے باعث انتقال کر جاتے ہیں۔

اسی تناظر میں پہلے سپریم کورٹ اور پھر بعد ازاں پنجاب حکومت نے 2009 میں پتنگ بازی پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی تھی، حکومتی پابندیوں اور پولیس کے سخت کریک ڈاؤن کے باوجود بھی اب بھی ملک بھر میں موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی پتنگ بازی شروع ہو جاتی ہے اور پنجاب کے ہر بڑے شہر میں بسنت بھی منائی جاتی ہے۔

راولپنڈی، لاہور، قصور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ سمیت دیگر شہروں میں ہر سال جنوری سے مارچ کے آخر تک ہر روز پتنگ بازی کی جاتی ہے۔

گزشتہ دنوں فیصل آباد کا 22 سالہ جوان آصف مشتاق موٹر سائیکل پر سفر کے دوران گلے پر پتنگ کی ڈور پھرنے سے جاں بحق ہو گیا، اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پتنگ بازی کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ پتنگ بازی روکنے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر پولیس کی جانب سے سخت کارروائیوں اور پتنگ فروشوں کی گرفتاریوں کے باوجود حکومت پتنگ بازی روکنے میں کیوں ناکام ہے۔

پتنگ بازی کو صرف پنجاب میں روکا جاتا ہے اور پتنگ بازی کے لیے استعمال ہونے والی ڈور اور پتنگیں تیار کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن ہوتے ہیں تاہم صوبہ خیبرپختونخواہ اور صوبہ بلوچستان میں پتنگ بازی کرنے والے اور پتنگیں اور ڈور تیار کرنے والوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے، بڑی بڑی مارکیٹیں ہیں جہاں ملک بھر سے لوگ آ کر پتنگیں خریدتے ہیں اور اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

پنجاب کے مختلف شہروں میں فروری کے ماہ میں بسنت کا تہوار منایا جاتا ہے، فروری سے قبل پنجاب بھر سے نوجوان اپنے گاڑیوں میں صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر پشاور اور ہری پور کا رخ کرتے ہیں اور بڑی مقدار میں پتنگیں اپنی گاڑیوں میں ڈال کرلے جاتے ہیں، اپنے شہر پہنچ کر دوستوں میں تقسیم کرتے ہیں اور پھر پتنگیں اڑاتے ہیں۔

صوبہ خیبرپختونخواہ اور کوئٹہ میں بعض ایسے دکاندار بھی ہیں کہ جو آن لائن خریداری کرنے پر پتنگیں اور ڈور گھروں تک ڈیلیور کرتے ہیں، یہ دکاندار سوشل میڈیا فیس بک کا استعمال کرتے ہیں، لوگ ان سے رابطہ کرتے ہیں اور پھر بتائے ہوئے پتے پر پتنگیں اور ڈوریں پہنچ جاتی ہیں۔

آج کل ایک نیا رواج آ گیا ہے کہ بسنت سے قبل پتنگیں بنانے والے کو اپنے گھر بلایا جاتا ہے اور اس سے اپنی مرضی کی پتنگیں تیار کرائی جاتی ہیں، ایسے پتنگ میکر سامان اپنے ساتھ لاتے ہیں اور دو سے تین دن اسی گھر میں قیام کر کہ آرڈر ملنے والی پتنگیں تیار کرتے ہیں۔

بسنت کی تاریخ کا اعلان عمومی طور پر سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک پر کیا جاتا ہے، اس روز شہر میں بھرپور بسنت اور ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے، بسنت کے روز متعدد اموات ہوائی فائرنگ کے بعد اندھی گولی لگنے سے بھی ہوتی ہیں۔

پولیس کے پاس پتنگ بازی روکنے کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ پتنگیں تیار ہی نہ ہونے دی جائیں، وگرنہ بسنت کے دن چھاپے مار کر سینکڑوں لوگوں کو گرفتار تو کرلیا جاتا ہے تاہم اس کے باوجود شہر میں ہزاروں پتنگیں اڑتی رہتی ہیں۔

دوسری جانب ایسے افراد جو سوشل میڈیا پر بسنت کا اعلان کرتے ہیں، فیس بک پر پتنگیں فروخت کرتے ہیں اور اپنی پتنگ بازی کی ویڈیوز اپلوڈ کرتے ہیں، ایسے لوگوں کی نشاندہی کر کے بھی تنگ بازی کو روکا جا سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp