24 نومبر سے شروع ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج میں کئی موڑ آئے اور گزشتہ روز 26 نومبر کو جب مظاہرین تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے اسلام آباد کے جناح ایونیو پہنچے جہاں ورکرز نے تمام رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے رستے کلیئر کر دیے تو ایسا لگا کہ حکومت مکمل طور پر ناکام جبکہ احتجاجی مظاہرین مکمل طور پر کامیاب ہو گئے ہیں۔
منگل کے روز صبح دس سے گیارہ بجے کے درمیان جب جناح ایونیو سے تمام نفری ہٹا لی گئی تو بالکل حکومت کی ہار صاف نظر آنے لگی لیکن آنے والی رات چند ہی گھنٹوں کے آپریشن میں تمام مظاہرین کو نہ صرف ہٹا دیا گیا بلکہ متعدد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔
سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کو دیکھتے ہوئے احتجاجی مظاہرین کا جناح ایونیو پہنچنا بھی ایک بڑی کامیابی نظر آ رہا تھا۔ ان کی قیادت وزیر اعلٰی علی امین گنڈاپور اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کر رہی تھیں۔
آنکھوں دیکھا حال
راقم الحروف نے اسلام آباد پہنچنے کے بعد احتجاجی مظاہرین میں وقت گزارا اور ان کے ساتھ بات چیت کے مواقع بھی میسر آئے۔ یہ تمام لوگ جناح ایونیو پہنچنے پر بہت خوش اور پرجوش تھے۔ ان کے خیال میں وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں اور اب صرف بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کا ہدف ہی ان کی راہ میں حائل ہے جسے وہ حاصل کر کے جائیں گے۔
نوجوانوں سے زیادہ ادھیڑ عمر افراد؛
راقم الحروف نے مشاہدہ کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ماضی کے احتجاجی دھرنوں، ریلیوں کے برعکس اس احتجاج میں خیبر پختونخوا سے آنے والے ادھیڑ عمر افراد کی تعداد خاصی زیادہ تھی۔ وہ اپنے علاقوں کے ایم این اے، ایم پی اے یا بااثر افراد کے کہنے پر احتجاج میں شریک ہوئے تھے۔ ایسے لوگوں کی اکثریت مزدور پیشہ افراد پر مشتمل تھی۔
قیادت کے بارے میں شدید بداعتمادی
شام چھ اور سات بجے کے درمیان بہت سے احتجاجی مظاہرین احتجاج سے نکلنا شروع ہو گئے جس پر احتجاجی مظاہرین میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ یہ وقت آگے بڑھنے کا ہے نہ کہ پیچھے ہٹنے کا۔ اور کئی مظاہرین نے اس نمائندے سے بھی یہی بات کی۔
احتجاجی مظاہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ نہ علی امین گنڈاپور اور نہ بشریٰ بی بی بلکہ وہ صرف عمران خان کی وجہ سے آئے ہیں اور ان کی سیاسی قیادت انہیں دھوکہ دے کر نکل سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ احتجاجی مظاہرے میں پاکستان تحریک انصاف کی زیادہ تر قیادت غیر حاضر نظر آئی جس سے وہاں موجود مظاہرین بد دل ہوئے۔
ایسی ہی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سکیورٹی فورسز نے چند گھنٹوں کے آپریشن کے بعد جناح ایونیو خالی کرا لیا، لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف جس نے اس احتجاجی مظاہرے کو ’فائنل کال‘ کا نام دیا تھا وہ اس سیاسی ہزیمت و پسپائی کے اثرات سے ریکور کر سکتی ہے؟
سیاسی جماعتوں میں بڑی قوت مدافعت ہوتی ہے: احمد بلال محبوب
پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی(پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دھرنے کی ناکامی پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے لیکن سیاسی جماعتوں میں بڑی قوت مدافعت ہوتی ہے اور وہ اسی طرح کی ہزیمت اور پسپائی سے ریکور کر جاتی ہیں جب تک ان کا سپورٹ بیس قائم رہتا ہے، تاہم اس بات کا انحصار اس پر ہے کہ اس سیاسی جماعت کے پاس ریکوری پلان کیا ہے اور ایسی ہزیمت و پسپائی کے بعد وہ کس طرح کا رویہ اختیار کرتی ہے۔ اگر درست ریکوری پلان نہ ہو تو سیاسی جماعتیں تتر بتر بھی ہو جاتی ہیں۔
اس احتجاج کے آغاز سے قبل جس طرح کے بڑے بڑے دعوے کئے گئے تھے کہ ہر صورت ڈی چوک پہنچیں گے اور عمران خان کو واپس لے کر جائیں گے اور اس کے بعد اس طرح کی صورتحال کا بن جانا اور تسلسل کے ساتھ ایسی صورتحال کا بننا قیادت پر عوام کے اعتماد کو متزلزل کر دیتا ہے۔ ایسی صورتحال میں وہ عناصر جو نیم دروں نیم بروں کی کیفیت میں حمایت کر رہے ہوتے ہیں وہ بھاگ جاتے ہیں لیکن جو اصل کارکن ہے وہ وہیں کھڑا رہتا ہے۔
پنجاب سے لوگ اس احتجاج کے لیے کیوں نہیں نکلے؟
اس سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب نے کہا کہ پی ٹی آئی کو جو فیصلہ کن اکثریت خیبر پختونخوا میں حاصل ہے جہاں اسے 70 فیصد ووٹ ملا ہے، اس کی یہ صورتحال پنجاب میں ہر گز نہیں۔ یہاں تو پی ٹی آئی اور ن لیگ کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہے اور پھر سپورٹرز ہمیشہ ووٹرز سے کم ہی ہوتے ہیں۔ مطلب اگر پنجاب میں پی ٹی آئی ووٹرز کم ہیں تو سپورٹرز اس سے بھی کم ہیں۔
دوسرا تقسیم ہند سے بھی پہلے سے پنجاب میں گورننس بہتر ہے۔ حکومتوں کی تبدیلی نہیں بلکہ یہاں کی پولیس اور بیوروکریسی دوسروں صوبوں کی نسبت زیادہ مؤثر ہے، جس کی وجہ سے یہاں پاکستان تحریک انصاف اپنا سکہ اس طرح سے نہیں جما سکی جو کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے لیے بھی کامیابی ہے۔
پی ٹی آئی نے پنجاب کو نظرانداز کیا اسے انگیج نہیں کیا؛ ابصار عالم
معروف صحافی اور تجزیہ نگار ابصار عالم نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کو اس احتجاج کی ناکامی سے ایک بڑا جھٹکا لگا ہے اور اب وہ اس سے پوری طرح ریکور نہیں کر سکتی، جزوی طور پر کر سکتی ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ یہ باقی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر اب صرف سیاست کرے اور یہ سٹریٹ ایجی ٹیشن اور وائلنس کو چھوڑ دے تو یہ ریکور کر سکتی ہے۔
پنجاب سے اس احتجاج میں لوگوں کی عدم شرکت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت پر پختونوں کا غلبہ ہے۔ پنجاب سے جو قیادت مؤثر ہو سکتی تھی وہ یا تو جیلوں میں ہے یا منظر سے غائب ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ پی ٹی آئی قیادت نے پنجاب کو نظر انداز بھی کیا ہے اور انہوں نے پنجاب کو پوری طرح سے انگیج کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ بس پختونوں کو اشتعال دلاتے رہے کہ بہادر ہوتے ہیں، غیرت مند ہوتے ہیں لیکن اب وہ بھی ناکام ہو گئے ہیں۔