شام میں قائم طرطوس کا بحری اڈا اور ’حمی میم‘ کا ہوائی اڈا، سابق سوویت یونین سے باہر روس کے واحد فوجی مراکز ہیں جو افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں روس کی سرگرمیوں میں کلیدی کردار کرتے رہے ہیں۔
شام میں باغیوں کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ملک میں قائم روس کے فوجی اڈوں سے متعلق مختلف خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا۔ اس حوالے سے روسی سرکاری میڈیا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ شامی باغی گروپ نے ملک میں موجود روس کی فوجی تنصیبات کی حفاظت کی ضمانت دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بشارالاسد اور ان کے خاندان کو پناہ دے دی
تاہم، اب اطلاعات ہیں کہ روس کے بحری جنگی جہاز شامی بندرگاہ طرطوس سے نکل گئے ہیں۔ غیرملکی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ طرطوس بندرگاہ پر روسی فریگیٹ اور تیل بردار جہازوں کو سیٹلائٹ کے ذریعے 9 دسمبر کو نقل و حرکت کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کے مطابق، روسی جہازوں کو طرطوس سے شمال مغرب میں 13 کلومیٹر کے فاصلے پر نقل و حرکت کرتے دیکھا گیا ہے۔ روسی وزات دفاع نے اب تک اس حوالے سے کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 5 دہائیوں تک شام پر حکومت کرنے والے الاسد خاندان کے عروج و زوال پر ایک نظر
واضح رہے کہ شام نے 1971 میں ایک معاہدے کے تحت طرطوس بندرگاہ سوویت یونین کو لیز پر دی تھی۔ یہ فوجی بحری مرکز 1977 میں مکمل طور پر فعال ہو گیا تھا۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا جس دوران عرب ریاستوں نے سوویت یونین کے ساتھ بھرپور تعاون کیا تھا۔
طرطوس گہرے پانیوں کی ایک بندرگاہ ہے جس سے روس کو اپنی جوہری آبدوزیں اس علاقے میں رکھنے کی سہولت حاصل ہے۔ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس کے بیرون ملک قائم بہت سے فوجی اڈے بند کر دیے گئے تھے، لیکن طرطوس کو برقرار رکھا گیا گیا تھا۔