امریکا کے شہر لاس اینجلس میں مختلف مقامات پر لگی آگ کو بجھانے کی کوششیں جاری ہیں تاہم اب اس بات کا جائزہ یہ آگ قدرتی طور پر نہیں لگی بلکہ اس میں انسانی ہاتھ کارفرما ہے۔ اس حوالے سے پولیس نے کچھ گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: امریکی فائربریگیڈ حکام لاس اینجلس آگ پر بے بسی کی تصویر بن گئے
امریکی میڈیا کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آتش زنی کے الزام میں کم از کم 8 افراد کو گرفتار کیا ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے متاثرہ علاقوں میں درختوں، جھاڑیوں، پتوں اور کچرے کو آگ لگائی۔
گرفتار افراد نے آگ کیوں لگائی، عجیب وجوہات؟
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق 14 جنوری کی شام ایک خاتون کو گرفتار کیا گیا جس نے مبینہ طور پر کچرے کے ڈھیروں کو آگ لگائی تھی۔
لاس اینجلس پولیس ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کے مطابق خاتون نے اعتراف کیا کہ وہ آگ لگانے اور تباہی پھیلانے سے لطف اندوز ہوتی ہے۔
مزید پڑھیے: لاس اینجلس آتشزدگی: فائر فائٹرز کی طلب اور معاوضوں میں ہوشربا اضافہ
ایک اور شخص کو درختوں کو آگ لگانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا جس نے پولیس کو اپنی حرکت کی وجہ بتاتے ہوئے بتایا کہ اس کو جلتے ہوئے پتوں کی خوشبو بیحد پسند ہے۔
ایک اور مشتبہ شخص کو شمالی ہالی وڈ میں گرفتار کیا گیا جس پر باربی کیو لائٹر کا استعمال کرتے ہوئے آگ لگانے کا الزام ہے۔
آتشزدگی کے 95 فیصد انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کیلیفورنیا میں جنگلات میں لگنے والی آگ کے 95 فیصد واقعات انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں خواہ وہ آتش زنی ہو، گرے ہوئے بجلی کے تار ہوں یا غیر محتاط آتشبازی۔
یہ واقعات بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ سنہ 2020 میں آتش زنی کے نتیجے میں 44 ہزار ایکڑ سے زائد رقبہ جل کر خاک ہوگیا تھا۔
مزید پڑھیں: لاس اینجلس کی آگ بھڑکی کیسے؟
گزشتہ سال کیلیفورنیا میں آتش زنی کے الزام میں مجموعی طور پر 109 گرفتاریاں کی گئی تھیں۔
دریں اثنا لاس اینجلس میں مختلف مقامات پر لگی آگ پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس آگ سے 40 ہزار ایکڑ رقبہ جل کر خاک ہوچکا ہے اور اس دوران اب تک 27 افراد کے مارے جانے کی اطلاعات ملی ہیں۔