’ہمیں افسوس ہے کہ بھارت اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکا، اس لیے ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ورلڈ کپ کا افتتاحی میچ اب ایڈن گارڈن میں نہیں ہوسکتا‘۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے یہ اعلان کب اور کیوں کیا، اس کی تفصیل کچھ دیر بعد، مگر اس سے پہلے ہم آپ کو پڑوسی ملک بھارت کے پروپیگنڈے سے متعلق آگاہ کرتے ہیں اور پھر یہ بتاتے ہیں ٹھیک 13 سال قبل بی سی سی آئی اپنے ملک بھارت کے لیے کتنی بڑی رسوائی کا سبب بنا تھا۔
تو بات یہ ہے کہ تقریباً 28 سال بعد پاکستان کو جب آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی ملی تو پاکستان نے بہترین انتظامات اور شاندار میزبانی کے لیے اپنے اسٹیڈیمز کی تزئین و آرائش اور اسے نئی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین محسن نقوی نے جون 2024 میں یہ اعلان کیا کہ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم کو نئے سرے سے تعمیر کیا جائے گا جبکہ کراچی اور راولپنڈی میں جزوی تبدیلیاں کی جائیں گی۔
جب یہ اعلان ہوا تو چیمپیئنز ٹرافی کے انعقاد میں چند ہی ماہ تھے اور ابتدا میں لوگوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ یہ غلط فیصلہ ہوگیا ہے اور اتنے مختصر وقت میں یہ سب ہونا ناممکن ہے۔
پھر اس حوالے سے پڑوسی ملک بھارت سے خاص انداز میں پروپیگنڈے کا آغاز ہوا اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے، لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ جو وعدہ پی سی بی نے 6 ماہ قبل کیا تھا، وہ اب مکمل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
یہ دعویٰ میں نہیں کررہا یا پاکستان کا میڈیا نہیں کررہا بلکہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کا وفد ان اسٹیڈیمز کا جائزہ لے چکا ہے اور اب تک کی ہونے والی تمام پیشرفت سے مطمئن بھی ہے۔ یعنی 19 فروری کو چیمپیئنز ٹرافی کا افتتاحی میچ طے شدہ شیڈول کے مطابق نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ہی ہوگا، جو پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
اس خوشخبری کو سننے کے بعد چلتے ہیں ٹھیک 13 سال پہلے آئی سی سی کے اس فیصلے کی طرف جو پوری دنیا میں بھارت کے لیے رسوائی کا سبب بنا تھا۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ 2011 کے ورلڈ کپ کی میزبانی بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے حصے میں آئی تھی، اس میں پاکستان کا نام بھی ہونا تھا مگر بدقسمتی سے امن و امان کے مسائل کے سبب ہم اس ایونٹ کی میزبانی سے محروم ہوگئے۔
بہرحال، تو بات یہ تھی کہ 27 فروری 2011 کو بھارت بمقابلہ انگلینڈ کا افتتاحی میچ ایڈن گارڈن میں طے ہوا مگر اس حوالے سے حیران کن بات یہ تھی کہ جب یہ سب کچھ طے ہوا اس وقت کلکتہ کا ایڈن گارڈن مکمل طور پر کھدا ہوا تھا اور بار بار ڈیڈلائن کو آگے بڑھانے کے باوجود بات بنتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
17 دسمبر 2010 کو کرس ٹیٹلے کی سربراہی میں آئی سی سی کی جائزہ کمیٹی نے اسٹیڈیم کا دورہ کیا اور وہاں کی صورتحال دیکھ کر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ آئی سی سی وفد کا کہنا تھا کہ جس رفتار سے کام ہورہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے تو 15 جنوری تک بھی کام مکمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، اور ہوا بھی بالکل ایسا ہی۔
دوسری طرف بھارت کا یہی خیال تھا کہ وقت پر کام مکمل ہوجائے گا مگر جب ایونٹ شروع ہونے سے چند دن قبل یعنی 27 جنوری 2011 کو آئی سی سی وفد نے دوبارہ اسٹیڈیم کا دورہ کیا تو اسے تعمیراتی کام کی پیشرفت دیکھ کر ایک پھر مایوسی ہوئی اور یہی وہ وقت تھا جب اسے یقین ہوگیا کہ وقت پر اسٹیڈیم تیار نہیں ہوسکتا جس کے بعد آئی سی سی نے باقاعدہ یہ اعلان کردیا کہ ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ کا میزبان اب ایڈن گارڈن نہیں ہوگا۔
آئی سی سی کے چیف ایکزیگٹیو ہارون لوگارٹ کا کہنا تھا کہ ہمیں افسوس ہے کہ بھارت اپنا وعدہ مکمل نہیں کرسکا اور بار بار تاریخ آگے بڑھنے کے باوجود ہمیں لگتا ہے کہ یہ کام وقت پر مکمل نہیں ہوسکتا۔
واضح رہے کہ آئی سی سی کے اس فیصلے نے پوری دنیا میں بھارت کو شرمندہ کیا اور ساتھ ان ہزاروں لوگوں کو بھی مایوس کیا جو افتتاحی میچ دیکھنے کے لیے تیار تھے۔
اب دونوں ممالک کے رویے میں ایک اور فرق یہ بھی دیکھیے کہ پی سی بی نے صحافیوں کے لیے اسٹیڈیم میں آمد و رفت پر کوئی پابندی نہیں لگائی بلکہ روزانہ کیا گھنٹوں کی بنیاد پر اسٹیڈیمز سے تازہ ترین صورتحال لوگوں کو بتائی جارہی ہے، مگر دوسری طرف بھارت نے اس وقت ایڈن گارڈن میں صحافیوں کی انٹری پر پابندی لگائی ہوئی تھی کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ اگر ٹھیک صورتحال میڈیا پر آگئی تو اسے مزید سبکی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ ایڈن گارڈن کو 3 میچوں کی میزبانی کرنی تھی مگر پھر یہ افتتاحی میچ کی میزبانی کا اعزاز بینگلور کو مل گیا۔
تاریخ کا یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو ہمیشہ بھارت کے لیے بدنما داغ رہے گا اور پاکستان کے خلاف بڑھتے پروپیگنڈے کی وجہ بھی یہی ہے کہ بھارت یہ چاہتا ہے کہ جس سبکی کا سامنا اسے 13 سال قبل ہوا تھا وہی پاکستان کو بھی ہو، مگر پاکستان نے جو وعدہ کیا تھا اب وہ پورا ہونے کے قریب ہے اور 19 فروری کو چیمپئنز ٹرافی کا شاندار افتتاحی میچ ہم ضرور کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہوتا دیکھیں گے۔