بلاسفیمی گینگز یا توہینِ مذہب جھوٹے مقدمات سے متعلق عدالتی کارروائی کیا ہے؟

جمعرات 27 مارچ 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ 2 روز سے اِسلام آباد ہائیکورٹ میں توہینِ مذہب سے متعلق الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیے جانے سے متعلق درخواستوں کی سماعت براہِ راست نشریات کے ذریعے سے دکھائی جا رہی ہیں۔ اِسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان 101 درخواستوں کی سماعت کر رہے ہیں جن میں درخواست گزاروں کا دعوٰی ہے کہ اُن پر توہینِ مذہب کے جھوٹے الزامات لگا کر اُن کو پھنسایا گیا۔

اس مقدمے کا ایک پہلو اسپیشل برانچ کی ایک رپورٹ ہے جس میں ایک سورس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ توہینِ مذہب کا کاروبار کرنے والا ایک پورا گروہ موجود ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے سے لوگوں کو توہینِ مذہب کے الزامات میں پھنسا کر اُن سے پیسے وصول کرتا ہے۔
آیا یہ الزام درست ہے یا غلط اِس کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے اور اِسی کے لیے درخواست گزاروں کی جانب سے عدالت سے یہ استدعا کی جا رہی ہے کہ الزامات کی صحت کا تعین کرنے کے لیے عدالتی کمیشن بنایا جائے۔

مزید پڑھیں: تربت: توہین مذہب کے الزام میں نجی اسکول کا استاد قتل

بلاسفمی گینگز یا بلاسفیمی بزنس گروپ کی اصطلاح کہاں سے آئی؟

امریکا میں مقیم ایک پاکستانی صحافی کی جانب سے گزشتہ برس یہ سٹوری بریک کی گئی کہ پاکستان میں بلاسفیمی گینگ یا بلاسفیمی بزنس گروپ کام کر رہا ہے جو مختلف عام شہریوں کے خلاف توہینِ مذہب مقدمات کا اندراج کرتا ہے۔ عموماً یہ مڈل کلاس یا غریب گھرانے کے افراد ہوتے ہیں اور بہت سارے مقدمات ہنی ٹریپنگ کے ذریعے سے بنائے گئے ہیں۔

جب یہ مقدمات بن جاتے ہیں تو پھر بلاسفیمی بزنس گروپ اِن لوگوں سے پیسے وصول کرتا ہے۔ اس مقدمے میں گزشتہ روز درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ اصل بات تو اسپیشل برانچ کی رپورٹ سے پتا چلی لیکن اِس کے باوجود بلاسفیمی بزنس گروپ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

امریکا میں مقیم پاکستانی صحافی کی رپورٹ کے مطابق اب تک 400 کے قریب لوگوں کے خلاف توہین مذہب الزامات کے تحت مقدمات درج کئے جا چُکے ہیں۔

توہین مذہب اور ہنی ٹریپ؟

راقم الحروف سے کچھ ایسے متاثرین نے رابطہ کیا جن کے مطابق اُن کے بیٹے کی فیس بک پر کسی لڑکی سے دوستی ہوئی، اُس لڑکی نے بعد ازاں لڑکے ساتھ واٹس ایپ پر بات چیت کرتے ہوئے اُسے توہینِ آمیز مواد بھیجا اور اُس کے بعد کسی بہانے سے واپس منگوا لیا۔ جونہی اُس لڑکے نے مواد واپس بھیجا۔ اُس پر توہین مذہب کا مقدمہ درج کر دیا گیا۔

مزید پڑھیں: توہینِ مذہب کے قانون میں بہتری کی ضرورت

اِس مقدمے میں ایک درخواست گزار وکیل کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ اِس وقت 400 سے زائد لوگ توہینِ مذہب الزامات کا سامنا کر رہے ہیں اور زیادہ تر لوگوں کا تعلق اسلام آباد اور راولپنڈی سے ہے جن کو ہنی ٹریپنگ کے ذریعے سے مقدمات میں ملوث کیا گیا۔ زیادہ تر ملزمان 20 سے 30 سال عمر کے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایمان مزاری سمیت درخواست گزار وکلا نے بتایا کہ توہینِ مذہب کے مقدمات کا اندراج کرنے والے منظم گینگ کی صورت میں کام کرتے ہیں۔ 25 سے 30 افراد ہیں جنہوں نے پورے مُلک سے 450/400 لوگوں کو توہین مذہب کے الزامات میں پھنسا رکھا ہے۔

اب مقدمے کا اندراج کرنے والے لوگ اور وکلا متاثرین سے پیسے مانگتے ہیں۔ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کے تحت لوگوں کو سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ مقدمات اپنی حساس نوعیت کی وجہ سے برسوں التوا کا شکار بھی رہتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp