امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے یوکرین پر سب سے بڑے فضائی حملے کے بعد انہیں ’پاگل‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ان سے خوش نہیں ہیں، وہ بہت سے لوگوں کو مار رہے ہیں۔
نیو جرسی میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وہ پیوٹن کو لمبے عرصے سے جانتے ہیں اور اچھے تعلقات رکھتے تھے، لیکن اب وہ شہروں پر حملے کر رہا ہے جسے وہ پسند نہیں کرتے۔ جب پابندیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو ٹرمپ نے کہا بالکل، ہم پابندیاں بڑھائیں گے۔
ٹرمپ نے سوشل پوسٹ میں بھی لکھا کہ پیوٹن بالکل پاگل ہو گیا ہے اور کہا کہ پیوٹن چاہتا ہے کہ وہ پورے یوکرین پر قبضہ کر لے، جو روس کے زوال کا باعث بنے گا۔ ٹرمپ نے یوکرینی صدر زیلنسکی پر بھی سخت نکتہ چینی کی اور کہا کہ ان کے بیانات ملک کے لیے نقصان دہ ہیں اور انہیں فوراً بند ہونا چاہیے۔
مزید پڑھیں: ہمیں ٹینک اور کمپیوٹر چِپس چاہییں، ٹی شرٹس یا موزے نہیں، ٹرمپ
یورپی اتحادی روس پر مزید پابندیاں لگانے کی تیاری کر رہے ہیں جبکہ امریکا امن مذاکرات کو آگے بڑھانے یا ناکامی کی صورت میں اسے ترک کرنے کی تیاری میں ہے۔ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے واشنگٹن کی حالیہ روسی حملوں پر خاموشی کو پیوٹن کی حوصلہ افزائی قرار دیا اور ماسکو پر سخت دباؤ، بشمول مزید پابندیاں، لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اتوار کی شب روس کی جانب سے 367 ڈرونز اور میزائل داغے گئے، جو 2022 میں مکمل حملے کے بعد سے ایک رات میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ اس حملے میں کم از کم 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ پیر کی صبح یوکرین کے کئی علاقوں میں ڈرونز اور میزائلوں کی آمد کی وارننگ بجائی گئی۔
گزشتہ ہفتے ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان 2 گھنٹے کی فون کال ہوئی جس میں امریکا کی طرف سے تجویز کردہ جنگ بندی پر بات ہوئی۔ ٹرمپ نے کہا کہ بات چیت بہت اچھی رہی اور دونوں ممالک جنگ بندی اور جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات شروع کریں گے۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوج کو طاقتور بنانے کا کریڈٹ خود کو دیدیا
یوکرین نے باضابطہ 30 روزہ جنگ بندی کی حمایت کی ہے، جبکہ پیوٹن نے کہا ہے کہ روس یوکرین کے ساتھ ممکنہ امن یادداشت پر کام کرے گا، جسے یوکرین اور یورپی ممالک تاخیری حربہ قرار دیتے ہیں۔
16 مئی کو ترکی کے استنبول میں دونوں ملکوں کے درمیان پہلی براہ راست بات چیت ہوئی تھی، مگر زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ روس اب قریباً 20 فیصد یوکرینی علاقے پر قابض ہے جس میں 2014 میں الحاق شدہ کریمیا بھی شامل ہے۔