پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ اگر کوئی فریق آپ پر حملہ آور ہو رہا ہو تو پھر آپ کو مفاہمت کی نہیں، مزاحمت کی سیاست کرنی چاہیے۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران مفاہمت کی سیاست سے متعلق ایک سوال کے جواب میں میں خواجہ آصف نے کہا کہ کس سے مفاہمت کریں؟ کیا بھلا پی ٹی آئی سے مفاہمت ہوسکتی ہے؟ وہ 3، 4 حملے اسلام آباد پر کر چکے ہیں، اب عید کے بعد ایک نئے حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس کے بعد کیا مفاہمت کی سیاست ہونی چاہیے یا مزاحمت کی سیاست ہونی چاہیے؟
انہوں نے کہا کہ مفاہمت کی سیاست تب ہوتی ہے جب دوسرا فریق حملہ آور نہ ہو رہا ہو۔ اگر دوسرا فریق حملہ آور ہو رہا ہو تو پھر آپ کو مزاحمت کی سیاست کرنی چاہیے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا نے اپنا اثر و رسوخ اور دائرہ کار بڑھانے کے لیے جنگیں لڑی۔ عراق میں بھی لڑی اور افغانستان میں بھی لڑی۔ آپ دیکھیں کہ ان تمام جنگوں میں امریکا کبھی کسی کے ساتھ ہوتا ہے اور کبھی کسی کے خلاف ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیےمذاکرات سے انکار کی کوئی بنیاد نہیں، پی ٹی آئی والے عمران خان کے ساتھ بھی مخلص نہیں، خواجہ آصف
انہوں نے کہا کہ ہم خود دہشتگردی کے سب سے بڑے شکار ہیں۔ ہم نے ایک دہشتگرد کو گرفتار کرکے امریکا کے حوالے کیا ہے۔ اگر بین الاقوامی برادری اس پر ہماری تعریف کر رہی ہے، امریکا تعریف کر رہا ہے۔ یہ ایک مشترکہ جنگ ہے جس میں سب کو حصہ ڈالنا چاہیے۔ پاکستان فرنٹ لائن پر لڑ رہا ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ افغانستان سے پاکستان میں جو دراندازی ہورہی ہے، وہ اس ہائی ٹیک اسلحہ کی وجہ سے ہورہی ہے جو امریکا افغانستان میں چھوڑ گیا ہے۔ خود موجودہ امریکی صدر کہہ رہے ہیں کہ یہ اسلحہ وہاں نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔
’میں سمجھتا ہوں کہ امریکی اپنی غلطی کا احساس کر رہے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اس اسلحہ کو وہاں سے واپس منگوائیں گے۔ اس سے دہشتگردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں کامیابی کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔‘
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے وفاق پر عائد الزامات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیر دفاع نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت خود بھی دہشتگردی کی ذمہ داری اٹھائے۔ وہ جرگہ جرگہ کر رہے ہیں، اور کچھ بھی نہیں کر رہے۔ وہ عمران خان کے لیے اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ان کی پرفارمنس صفر ہے۔ پارا چنار میں آج بھی حالات مخدوش ہیں۔ وہاں پر امن نہیں ہوا۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ وہاں دہشتگردی ہورہی ہے تو وہ وفاق سے تعاون لیں۔ وفاق ہر قسم کی مدد کرنے کو تیار ہے۔
یہ بھی پڑھیےعلی امین گنڈاپور کہتے ہیں 99 فیصد مطالبات پورے ہوگئے تو پھریہ احتجاج کس بات کا؟ خواجہ آصف
انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے پشاور میں بیٹھی ہوئی حکومت کے خلاف انکوائری ہونی چاہیے۔ باقی انکوائریاں بعد میں ہوں گی۔ وہ دہشتگردوں کے ساتھ ہیں یا وفاق کے ساتھ ہیں۔
جب ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کے حوالے سے پوچھا گیا کہ کیا اس سے تحریک انصاف کی امیدوں کا خون ہوا ہے؟ خواجہ آصف نے کہا کہ یہ سوال ان سے کریں، یہ سوال مجھ سے نہیں بنتا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان پہلے یہاں خطوط بازی کرتے رہے ہیں، اب اس خطوط بازی کو بین الاقوامی درجہ دیدیا ہے۔ جو پچھلے خطوط کا حشر ہوا ہے، وہی بین الاقوامی خطوط کا حشر ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ میں عمران خان کو کوئی مشورہ نہیں دے سکتا۔ وہ ہمارے مشوروں سے بہت دور ہیں۔ انہیں کون مشورہ دے سکتا ہے۔