برازیل: BRICS سربراہی اجلاس میں روسی اور چینی صدور کی عدم شرکت، کیا وجہ بنی؟

اتوار 6 جولائی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اتوار سے شروع ہونے والےBRICS سربراہی اجلاس میں رکن ممالک کے رہنما امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی تجارتی پالیسیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بلاک کو کثیر القطبی دنیا کا ترجمان اور عالمی جنوب کی آواز کے طور پر پیش کریں گے۔

اجلاس میں اگرچہ برازیل، بھارت، جنوبی افریقہ، ایران، مصر اور سعودی عرب کے اعلیٰ سطح وفود شریک ہیں، تاہم 2 اہم غیر حاضریاں خاصی توجہ کا مرکز ہیں۔ چینی صدر شی جن پنگ نے 2012 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار اجلاس میں شرکت نہیں کی اور ان کی جگہ وزیراعظم لی چیانگ شریک ہیں۔

دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن بھی اجلاس میں ذاتی حیثیت میں شریک نہیں ہو رہے، کیونکہ ان پر بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے یوکرین پر 2022 کے حملے کے الزام میں گرفتاری کا وارنٹ جاری ہے۔ چونکہ برازیل روم اسٹیچیو کا دستخط کنندہ ہے، اس لیے قانونی طور پر وہ پیوٹن کو گرفتار کرنے کا پابند ہوتا۔

امریکا کی تجارتی پالیسیوں پر شدید ردعمل متوقع

BRICS رہنما ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے لگائے گئے اندھے تجارتی محصولات کو نہ صرف غیر قانونی قرار دیں گے بلکہ ان کا مؤقف ہو گا کہ یہ عالمی معیشت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اجلاس میں دیگر اہم موضوعات میں عالمی صحت، مصنوعی ذہانت (AI) اور ماحولیاتی تبدیلی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو ’پاگل‘ قرار دے دیا

توقع ہے کہ BRICS فورم ترقی پذیر ممالک کے مفادات کی ترجمانی کرتے ہوئے G7 جیسے مغربی اقتصادی اتحاد کے مقابل ایک متبادل عالمی نظام کا خاکہ پیش کرے گا۔

رکنیت میں وسعت، لیکن اندرونی اختلافات بھی موجود

BRICS میں ابتدائی طور پر برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل تھے، مگر بعدازاں ایران، مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا اور ایتھوپیا مکمل رکن بن چکے ہیں، جبکہ بیلاروس، کیوبا اور ویتنام جیسے 10 ممالک کو اسٹریٹجک شراکت دار کا درجہ حاصل ہے۔

تاہم اجلاس کے پس منظر میں داخلی اختلافات بھی ابھر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بعض رکن ممالک غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں اور ایران پر حالیہ حملوں پر زیادہ سخت مؤقف اپنانے کے حق میں ہیں، جس پر اختلاف موجود ہے۔

اگرچہ BRICS کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی آدھی آبادی، 36 فیصد زمینی رقبے اور 25 فیصد عالمی اقتصادی پیداوار کی نمائندگی کرتا ہے، لیکن چینی اور روسی صدور کی غیر حاضری اور داخلی اختلافات اس بلاک کی مستقبل کی یکجہتی پر کئی سوالیہ نشان چھوڑ رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp