وادی کوئٹہ ان دنوں یخ بستہ ہواؤں کی لپیٹ میں ہے، ایسے میں وادی کے باسیوں نے گرم ملبوسات الماریوں سے نکال لیے ہیں۔ بات ہو گرم ملبوسات کی اور شال کا ذکر نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں۔ ویلوٹ، اون، اسٹیپل سمیت دیگر اقسام کے کپڑوں سے بنی یہ چادریں نہ صرف اوڑھنے کے بعد دلکش نظر آتی ہیں بلکہ جسم کو حرارت فراہم کرنے میں بھی مددگار ہوتی ہیں۔
کوئٹہ میں واقع شال کی دکانوں پر اس وقت خریداروں کا رش نظر آتا ہے، جو نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوست احباب اور اہل خانہ کے لیے اسے خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، شہر میں دستیاب بیشتر شالیں خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے منگوائی جاتی ہیں تاہم سوات کی چادریں شہریوں کی اولین ترجیح ہیں۔
مختلف رنگوں سے بنی ان شالز پرہاتھ سے کی جانے والی کشیدہ کاری سے مختلف ثقافتی کلچر کی جھلک بھی نمایاں ہوتی ہے۔ دکانداروں کے مطابق بلوچستان میں قبائلی رسم رواج کے مطابق سردیوں میں ان شالوں کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے جبکہ بہت سے مقامی افراد اسے سردیوں کے لباس کا اہم جزو سمجھتے ہیں جو مرد کی شخصیت کو مزید نکھارتا ہے۔
دکانداروں کا موقف ہے کہ یوں تو کئی اقسام کی شالیں کوئٹہ کی مارکیٹوں میں دستیاب ہیں لیکن یہاں کہ لوگ اون سے بنی سادہ شال کو بے حد پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ وزن میں کم اور گرم زیادہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان شالوں کی قیمت بھی عام شالوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک شال 15 سو سے 2 ہزار روپے تک مل جاتی ہے لیکن اعلٰی کوالٹی کی شالوں کی قیمت 10 ہزار روپے تک پہنچ جاتی ہے۔