جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مدارس رجسٹریشن پر اپنے مؤقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مدارس رجسٹریشن سے متعلق ترمیمی بل ایکٹ بن چکا ہے، اس میں کوئی ترامیم قبول نہیں کریں گے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مدارس رجسٹریشن ترمیمی بل ایکٹ بن چکا ہے تو غلط روایت کیوں ڈالی جارہی ہے، کل تو آئین ہی ختم ہوجائے گا، اگر آپ کی نہ مانی گئی تو بات کس طرف جائے گی، یہ تو پھر ان پر ہوگا کہ وہ باتیں کس طرف جانا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مدارس بل ایکٹ بن چکا، گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے،اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا عمل ایک ماہ سے زائد عرصہ تک جاری رہا، تمام سیاسی جماعتیں آن بورڈ تھیں، سیاست میں مذاکرات ہوتے ہیں، فریقین ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں، دلائل سے سمجھانے کے بعد بالآخر مسئلہ ایک حل پر پہنچتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوشش ہے کہ تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوجائیں لیکن مدارس کے معاملے پر حکومت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایوان کے سامنے تاریخ پہلو بیان کرنا چاہتا ہوں، 2004 میں حکومت اور دینی مدارس کے درمیان مذاکرات ہوئے، حکومت نے اس وقت مدارس کے حوالے سے 3 سوال اٹھائے تھے، پہلا سوال تھا کہ دینی مدارس کا مالیاتی نظام کیا ہے، دوسرا سوال یہ کہ دینی مدارس کا نصاب تعلیم کیا ہے اور تیسرا یہ کہ دینی مدارس کا تنظیمی ڈھانچہ کیا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مدارس بل پر صدر مملکت کے اعتراضات قانونی اور آئینی ہیں، وزیراطلاعات عطااللہ تارڑ
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ان تینوں سوالوں پر مذاکرات کے بعد جب حکومت مطمئن ہوگئی تو اس وقت قانون سازی ہوئی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ دینی مدارس محتاط رہیں گے کہ مدارس میں کوئی فرقہ وارانہ تعلیم نہ ہو، شدت پر آمادہ کرنے والا مواد پیش نہ کیا جائے البتہ تقابل ادیان اور تقابل مذاہب کے حوالے سے علمی مباحثے ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بعد میں مشکلات آتی رہیں، ہماری خفیہ ایجنسیاں مدارس میں جاتی تھیں اور وہاں ڈرانے اور دھمکانے کا ایک سلسلہ چل رہا تھا، جس پر سنجیدہ شکایت اٹھائی گئی جس پر فیصلہ ہوا کہ کسی بھی مدرسے کے خلاف شکایت براہ راست اس مدرسے میں جاکر نہیں اٹھائی جائے گی بلکہ اس تنظیم سے کی جائے گی جس کے ساتھ اس مدرسے کا الحاق ہے۔ انہوں نے کہا کہ پھر اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور ہوئی تو اس وقت حکومت نے خود سوال اٹھایا کہ مدارس 1860 کے سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں، چونکہ اب یہ صوبائی معاملہ بن چکا ہے لہٰذا مدارس اب خود کو وفاقی وزارت تعلیم سے وابستہ کرلیں۔
یہ بھی پڑھیں: مدارس بل پر مولانا فضل الرحمان کیساتھ ہاتھ ہوگیا، ایمل ولی خان
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سوسائیٹیز ایکٹ اسی لیے بنایا گیا تھا کہ نجی شعبہ میں بننے والی کمپنیاں اور ادارے ہوں گے وہ سب اسی میں رجسٹر ہوتے رہیں گے جبکہ وزارت تعلیم کے ساتھ بھی صرف تعلیم کی نسبت سے رجسٹریشن ہوگی۔ انہوں نے کہا اس ہر بات چیت ہوتی رہی لیکن ایکٹ نہیں بنا، وہ محض ایک معاہدہ تھا جو 3 باتوں پر مشتمل تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پہلی بات یہ تھی کہ وہ دینی مدارس جن کی رجسٹریشن ہوچکی ہے وہ برقرار رکھی جائے گی اور نئے مدارس کی رجسٹریشن پر حکومت تعاون کرے گی، دوسری بات یہ کہ دینی مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھول دیے جائیں گے، تیسری بات یہ کہ غیرملکی طلبا کو پاکستان کے دینی مدارس میں تعلیم کی اجازت دی جائے گی اور انہیں 9 سال کا ویزا دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: اب مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی مل کر اسلام آباد پر چڑھائی کریں گے؟
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بعد میں ایک ایجوکیشن بورڈ بنا جس کے تحت 12 مراکز بنائے گئے، یہ ایگزیکٹو آرڈر تھا جس کا اس معاہدے سے کوئی تعلق نہیں، آج اگر کوئی اس کی بات کرتا ہے تو یہ پس از مرگ واویلا کرنے کی بات ہے، وہ معاہدہ حکومت کی طرف سے ٹوٹ چکا تھا، آج تک تنظیمات مدارس دینیہ سے وابستہ کسی مدرسے کی رجسٹریشن ہوسکی ہے اور نہ ہی اس کا بینک اکاؤنٹ کھولا جاسکا ہے اور نہ ہی کسی طالبعلم کو آج تک ویزہ دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعد میں کسی کے فیض سے مدارس توڑ دیے گئے، اب تک یہی پانچ تنظیمیں اور بورڈز تھے، اس کے بعد نہ جانے 20، 25 بورڈز بنا دیے گئے، جس کا 2004، 2010 کے معاہدوں یا حال ہی میں ہونے والی قانون سازی سے کوئی تعلق ہے، الیکشن سے پہلے پی ڈی ایم حکومت کے دور میں وزیراعظم شہباز شریف سے کہا تھا کہ یہ مسئلہ الجھا ہوا ہے، اس کو حل کریں، انہوں نے حامی بھری، تنظیمات مدارس کے تمام قائدین کو بلایا گیا، اس پر بات چیت ہوئی اور مشاورت سے اصول طے ہوئے، ہم نے اپنے مؤقف لچک دکھائی، ہم سے پوچھے بغیر مدارس کو توڑا گیا، وہ تنظیمیں بنائیں جنہیں ہم نے تسلیم نہیں کیا، لہٰذا مدارس آزاد ہوں گے، چاہے وہ ادھر رجسٹریشن کرائیں یا ادھر۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بعد میں اس پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے ڈرافٹ بنا اور جس طرح معاہدہ بنا تھا، اسی کے مطابق ایک ڈرافٹ آیا اور ایوان میں پیش کیا گیا، اس ایوان میں اس کی پہلی خواندگی ہوئی، جب دوسری خواندگی شق وار ہورہی تھی تو پتا نہیں کہاں سے ہدایات آئیں کہ قانون سازی کے دوران اس ڈرافٹ میں تبدیلیاں کی گئیں، جس کے بعد ہم نے کہا کہ ہم اس قانون سازی کا حصہ نہیں بنیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس ایوان میں جس وقت 26ویں آئینی ترمیم پر بات ہورہی تھی تو اس وقت ہم نے مدارس رجسٹریشن بل کو بھی اس ترمیم کا حصہ بنانے کی بات کی تھی، ہم نے یہ نہیں کہا کہ دوسرے مدارس کو اس بل سے نکال دیں، لیکن جو ایوان سے بل پاس ہوا ہے، اس میں وزارت تعلیم کے تحت مدارس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، یہ ڈرافٹ ہم نے نہیں بنایا، یہ حکومت کی طرف آیا تھا جسے ہم نے قبول کیا اور یہ ایوان سے منظور ہوگیا۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ 20 اور 21 اکتوبر کو بل سینیٹ اور قومی اسمبلی سے پاس ہوگیا، جونہی وہ پاس ہوا تو بتایا گیا کہ صدر مملکت اس پر ابھی دستخط کریں گے، آدھے گھنٹے بعد پتا چلا کہ دستخط کی تقریب ملتوی ہوگئی ہے، اب سوال یہ ہے کہ 28 اکتوبر کو صدر اس بل پر ایک اعتراض اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیجا گیا، جسے اسپیکر نے قلمی غلطی قرار دیکر اس کی تصحیح کردی، اس کا معنی ہے کہ یہ بل صدر کو اکتوبر میں موصول ہوچکا تھا، سینیٹ چیئرمین نے بھی معاملہ نمٹا دیا، بعدازاں، صدر نے بھی اس معاملے کو ختم کردیا، جس کا مطلب ہے کہ یہ ایکٹ بن گیا، صدر کو ایک بار اعتراض کا حق حاصل ہے، دوسری بار اعتراض کا حق انہیں حاصل نہیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر عارف علوی کے دور میں ایک بل گیا تو انہوں نے 10 دن کے اندر اس پر دستخط نہیں کیے جس پر وہ خودبخود قانون بن گیا، اب یہ نظیر قائم ہوچکی، لہٰذا اس بل کے معاملے پر بھی صدر کے اعتراض کا جواب ہوچکا، اس لحاظ سے مدارس رجسٹریشن بل اب ایکٹ بن چکا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ آپ رجسٹریشن نہ کریں پھر بھی مدرسہ زندہ رہے گا، بینک اکاؤنٹ نہ کھولیں پھر بھی پیسے آئیں گے ، پہلے ہم نے اپنی جماعت کا مؤقف دیا اب یہ تنظیمات مدارس کا مؤقف ہے ، ہم کوئی ترمیم قبول نہیں کریں گے، بعد میں کوئی تجویز آئی تو اس پر بات کرسکتے ہیں ، جان بوجھ کر حالات کو خراب نہ کریں، یہ بات نہ مانی گئی تو پھر ایوان کی بجائے میدان میں فیصلہ ہوگا۔