کم عمری کی شادی لڑکیوں سے ان کا بچپن، خوشیاں اور خواب ہی نہیں، ان کی زندگی بھی چھین لیتی ہے۔ جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) نے پاکستان میں ایک مختصر فلم کے ذریعے اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے جو لاکھوں لڑکیوں کی زندگی تاریک کررہا ہے۔
‘سلمیٰ ۔ خاموش چیخ’ دیہی علاقے میں رہنے والی ایک کم عمر لڑکی کی کہانی ہے جس کے خواب قبل از وقت شادی نے توڑ دیے ہیں۔ وہ ازدواجی زندگی کی ذمہ داریوں، صحت کے مسائل، معاشرتی دباؤ اور سماجی بدنامی سے لڑتے ہوئے اس راستے پر اپنی زندگی کو سنبھالنے کی جدوجہد کرتی ہے جو اس نے خود منتخب نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: کم عمری کی شادی کے خاتمے کے لیے ملک گیر مہم کا آغاز
اس فلم میں خاص طور پر کم عمری کے حمل میں لڑکیوں کو درپیش جسمانی، ذہنی و سماجی مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ایسی لڑکیوں کو دوران حمل خون کی کمی، جسمانی کمزوری، ذہنی دباؤ، زچگی کی پیچیدگیوں حتیٰ کہ موت کے خطرے کا سامنا رہتا ہے۔ نوعمر سلمیٰ اپنے کھیلنے کودنے اور اسکول جانے کی عمر میں یہ تمام مسائل جھیلتی ہے مگر ان کی تاب نہیں لاپائی۔
’دنیا میں 20 فیصد لڑکیوں کی شادی نوعمری میں ہوجاتی ہے‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے مطابق دنیا میں 20 فیصد لڑکیوں کی شادی نوعمری میں ہوجاتی ہے۔ اس وقت 65 کروڑ خواتین ایسی ہیں جو 18 برس کی عمر کو پہنچنے سے پہلے بیاہی گئی تھیں۔ اس اعتبار سے جنوبی ایشیا دنیا میں سرفہرست ہے جہاں 40 فیصد لڑکیاں اپنی شادی کے وقت نوعمر ہوتی ہیں۔
پاکستان میں ایک کروڑ 90 لاکھ خواتین کی شادی نوعمری میں ہوگئی
یونیسف کے جاری کردہ اعدادوشمار کی رو سے پاکستان میں ایک کروڑ 90 لاکھ خواتین ایسی ہیں جن کی نوعمری میں شادی ہو گئی تھی۔ ملک میں ایک تہائی لڑکیاں 18 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے بیاہ دی جاتی ہیں اور ان کی 54 فیصد تعداد 18 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی حاملہ ہوجاتی ہے جس سے ماں اور بچے دونوں کی صحت کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
طبی مسائل اور تاریک مستقبل
88 فیصد نوعمر بیاہتائیں عمر بھر غربت اور بیماریوں سے لڑتی رہتی ہیں کیونکہ ان کا تعلق دیہی علاقوں، کم تعلیم یافتہ خاندانوں اور غریب گھرانوں سے ہوتا ہے جن کی بہتر غذائیت اور علاج معالجے تک رسائی بہت محدود ہوتی ہے۔
کم عمری کی شادی لڑکیوں سے ان کا بچپن اور بہتر مستقبل کے امکانات چھین لیتی ہے۔ عام طور پر ایسی لڑکیاں اسکول کی تعلیم مکمل نہیں کر سکتیں اور انہیں گھریلو تشدد، بدسلوکی اور طبی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
‘یو این ایف پی اے’ کا کہنا ہے کہ ایسی شادیوں کے باعث لڑکیوں میں بچے کی قبل از وقت پیدائش، فسچولا اور جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں جو ان کی موت پر منتج بھی ہوسکتے ہیں۔ نوعمری میں بیاہی جانے والی لڑکیوں کی دوران زچگی موت کا خطرہ بھی دیگر خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
رسوم و روایات صنفی نابرابری
پاکستان کے صوبہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں لڑکی کے لیے شادی کی قانونی عمر 16 سال اور لڑکوں کے لیے 18 سال ہے۔ سندھ ملک کا واحد صوبہ ہے جس نے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے شادی کی کم از کم قانونی عمر 18 سال مقرر کی ہے۔ تاہم کم عمری کی شادی کا تدارک محض قوانین کے ذریعے ممکن نہیں ہوتا۔
‘یو این ایف پی اے’ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نوعمری کی شادی کا مسئلہ روایات اور ثقافتی رسوم و رواج سے جڑا ہے، نوعمری کی شادی کو روکنے کے لیے اس کے پیچیدہ اسباب کو سمجھنا ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کم عمری کی شادی بچیوں کو کیسے متاثر کرتی ہے؟
ملک کے دیہی علاقوں میں رہنے والی ناخواندہ اور انتہائی غریب لڑکیوں کے لیے نوعمری میں بیاہے جانے کے خطرات کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ بہت سے والدین معاشی مشکلات یا ‘خاندان کی عزت’ بچانے کی خاطر لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دیتے ہیں۔ سماجی و صنفی عدم مساوات نے اس مسئلے کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔
‘یو این ایف پی اے’ کا کہنا ہے کہ نوعمری کی شادی کا خاتمہ تعلیم، طبی معلومات، خدمات اور زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے درکار صلاحیتوں کے حصول کی تربیت تک لڑکیوں کی مؤثر رسائی کا تقاضا کرتا ہے۔
لڑکیوں کے تحفظ کے اقدامات
‘یو این ایف پی اے’ پاکستان میں اپنے شراکت داروں کے تعاون سے نوعمر لڑکیوں کو قبل از وقت شادی سے تحفظ دینے کے لیے کوشاں ہے۔ ادارہ اس ضمن میں قوانین کو بہتر بنانے، اس مسئلے کو روکنے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے، نوجوان لڑکیوں کو بااختیار بنانے اور جنسی و تولیدی صحت سے متعلق معلومات اور خدمات تک ان کی رسائی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کررہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کم عمری میں شادی، وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ جاری کر دیا
‘سلمیٰ – خاموش چیخ’ پاکستان میں نوعمری کی شادی کا رواج ختم کرنے کی ہنگامی ضرورت کو واضح کرتی ہے۔ ‘یو این ایف پی اے’ نے کہا ہے کہ اس فلم کے ذریعے ان بے شمار لڑکیوں کی آوازوں کو تقویت ملے گی جو کم عمری میں بیاہے جانے کے بجائے پڑھنا لکھنا اور اپنے خواب پورے کرنا چاہتی ہیں۔
تقریباً 16 منٹ دورانیے کی یہ فلم محسن علی اور رابعہ قادر نے لکھی جبکہ ابرار الحسن اور حنا امان نے پروڈیوس کی ہے۔ اس کے ہدایت کار محسن علی ہیں۔ فلم کی کاسٹ میں ادی، مرحبا، ثمینہ نذیر، ایشا، حاشر، عاطف خان، سحر ملک، رمشا فاطمہ اور دانیہ انصور شامل ہیں۔ اس کا مرکزی کردار (سلمیٰ) مرحبا نور نے ادا کیا ہے۔