مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا مذاکرات ترک کرنے کا اعلان افسوسناک ہے، حکومت اب بھی مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ اگر 9 مئی اور 26نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن نہیں بنایا جاتا تو وہ مذاکرات ختم کردے گی، پی ٹی آئی رہنماؤں نے کہا کہ وہ یہ بات عمران خان کی ایما پر کررہے ہیں، مذاکرات کا عمل پی ٹی آئی کی درخواست پر ہی شروع ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: القادر کی 500 کنال زمین عمران خان اور بشریٰ بی بی کی ملکیت ہے، عرفان صدیقی
عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں نے مذاکرات کے لیے گزشتہ سال 5 دسمبر کو کمیٹی بنائی تھی اور خود خواہش کی تھی کہ وہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں، اس سے قبل پی ٹی آئی کی جانب سے بہت سے محرکہ آرائیاں ہوچکی تھیں، فتوحات کی بڑی کوششیں ہوچکی تھیں، 9 مئی ہوچکا تھا، فائنل کال بھی ہوچکی تھی اور 26 نومبر بھی ہوچکا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں نے محسوس کیا کہ اب ان کے پاس صرف مذاکرات کا راستہ باقی رہ گیا ہے تو انہوں نے مذاکراتی کمیٹی بنادی، وہ کمیٹی اسپیکر قومی اسمبلی سے ملی اور خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کئی دروازوں سے مذاکرات نہیں چلا کرتے، عرفان صدیقی کی پی ٹی آئی پر شدید تنقید
’اسپیکر قومی اسمبلی وزیراعظم سے ملے، وزیراعظم نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دی، جس میں 7 اتحادی جماعتوں کے ارکان بھی شامل تھے، اس کے بعد سنجیدہ مذاکرات شروع ہوئے، پہلی میٹنگ میں طے پایا کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات تحریری شکل میں لے کے آئے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دوسری میٹنگ میں پی ٹی آئی رہنما تحریری مطالبات نہیں لے کے آئے، 16 جنوری کی میٹنگ میں وہ تحریری مطالبات لے کے آئے، 42 دن لگے ان کو اپنے مطالبات لانے میں، دوسری طرف پی ٹی آئی کا ہم سے تقاضا ہے کہ ہم 7 دن کے اندر اس کے مطالبات کا مثبت جواب دیں، جن ججز کا اس نے کہا ہے ان پر مشتمل جوڈیشل کمیشن ہمارے ٹی او آرز کے مطابق تشکیل دیں۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم نے پی ٹی آئی کے مطالبات کو بڑی سنجیدگی سے لیا، حکومتی کمیٹی نے غور کے لیے اجلاس بلایا، کمیٹی میں شامل رہنماؤں نے آپس میں مشاورت کی، لیکن آج جو بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ وہ میرے لیے بہت افسوسناک ہے، جو جماعت ہم سے ہاتھ ملانا نہیں چاہتی تھی، سمجھتی تھی کہ ہم چور، ڈاکوں ہیں، وہ ہم سے ہاتھ ملانے پہ راضی ہوگئے تو ہماری خواہش ہے کہ مذاکرات جاری رہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے مطالبات پر جواب تیار کرنے میں ایک ہفتے سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے، عرفان صدیقی
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں سمجھ آتی کہ ان 7 دنوں کے اندر ایسی کیا چیز ہوئی ہے، پچھلی میٹنگ میں دونوں کمیٹیوں کے درمیان طے پایا تھا کہ حکومتی کمیٹی 7 ورکنگ دنوں کے اندر اندر پی ٹی آئی مطالبات پر اپنا باضابطہ تحریری مؤقف دے گی، یہ 7 دن 28 تاریخ کو پورے ہورہے ہیں۔
’ہم بڑی تندہی سے کام کررہے ہیں لیکن وہ جس بیتابی سے آئے تھے، اسی بیتابی سے جارہے ہیں، ہم ان کو کہتے ہیں کہ ابھی نہ جائیں، کچھ دن ٹھہر جائیں اور موسم خوشگوار ہونے دیں، جو کچھ آپ پہلے کرتے رہے ہیں وہ 6 دن بعد بھی ہوسکتا ہے، ہم نے اسپیکر قومی اسمبلی کو کہہ دیا ہے کہ وہ 28 فروری کو مذاکراتی کمیٹیوں کا اجلاس بلائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آج 23 تاریخ ہے، پی ٹی آئی رہنما جس عمل کے لیے اتنے بیتاب تھے، اس کو بھاڑ میں جونکنے کے لیے تیار ہیں، صرف 5 دن مزید انتظار نہیں کرسکتے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی رہنماؤں نے خود کو عمران خان کے بیانات سے الگ کرلیا، عرفان صدیقی
انہوں نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پی ٹی رہنما بیرسٹر گوہر اور عمرایوب عمران خان کی ایما سے ہٹ کے کوئی رائے بنا سکتے ہیں تو ہماری ان سے اپیل ہے کہ وہ مذاکرات کے عمل کو نہ چھوڑیں، مذاکرات جمہوری عمل کا حصہ ہیں، ہم نے مذاکرات کو بڑے تحمل کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔
’عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی کال چل رہی ہے، وہ بیرون ملک پاکستانیوں کو کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستان پیسے نہ بھیجیں، ہم نے اس کو پوائنٹ نہیں بنایا، ہم نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو نہیں کہا کہ وہ عمران خان کو روکیں، ہم مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں۔‘